امریکی اخبارات سے: نیٹو سپلائی کی بحالی اور مصر-اسرائیل تعلقات

نیٹو رسد لے جانے والے ٹرکوں پر ماضی میں پاکستان میں حملے ہوتے رہے ہیں

اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے نیٹو رسد کی بحالی کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے حالیہ اتفاقِ رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے پاکستان کی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اپنے ایک تبصرے میں اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان حالیہ اتفاقِ رائے کو اس طرح پیش کر رہا ہے جیسا کہ یہ اس کی سفارتی کامیابی ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی ان شرائط سے دستبردار ہوگیا ہے جو اس نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے عائد کی تھیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ حالیہ اتفاقِ رائے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ سات ماہ سے جاری اس سفارتی تنازع کا خاتمہ ہوگیا ہے جس کا آغاز نومبر میں سلالہ کے مقام پر پاکستانی سرحدی چوکیوں پر امریکی بمباری سے ہوا تھا۔

واقعے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان نے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے جانے والی رسد کو راہداری دینے سے انکار کردیا تھا اور سپلائی کی بحالی واقعے پر امریکی معافی سے مشروط کی تھی۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ پاکستان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا کیوں کہ امریکہ نے واقعہ میں ہونے والے نقصان پر انتہائی محتاط لفظوں میں محض افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد حکومت نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے رسد لے جانے والے ہر ٹرک سے 'ٹرانزٹ فیس' کی مد میں پانچ ہزار ڈالر وصول کرنے کی شرط بھی عائد کی تھی جو ماضی میں فی ٹرک وصول کیے جانے والے ڈھائی سو ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔
اوباما انتظامیہ نے اس بار پاکستان کے مطالبات کو زیادہ اہمیت نہیں دی
وال اسٹریٹ جرنل


لیکن اخبار کے مطابق پاکستان دوبارہ پرانی فیس کے بدلے ہی نیٹو ٹرکوں کو راہداری دینے پر آمادہ ہوگیا ہے جو امریکہ کے لیے یقیناً ایک اچھی خبر ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب نیٹو اور امریکہ کو افغانستان میں اپنی افواج تک رسد پہنچانے کے لیے وسطی ایشیا سے گزرنے والا نسبتاً مہنگا راستہ استعمال کرنے کی مزید ضرورت نہیں رہی۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے عائد کردہ مذکورہ دونوں شرائط کے پیچھے دراصل پاکستانی فوج تھی جو امریکہ سے یہ شرائط منوا کر اپنی وہ خفت مٹانا چاہتی تھی جو اسے اپنی ہی سرزمین پر امریکی فوجی کاروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر اٹھانا پڑی تھی۔

لیکن اوباما انتظامیہ نے اس بار پاکستان کے مطالبات کو زیادہ اہمیت نہیں دی کیوں کہ امریکیوں میں یہ خیال پختہ ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ بد دیانتی کر رہا ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کے گزشتہ ماہ دورہ بھارت نے بھی پاکستانی فوجی جنرلوں کو اپنے مطالبات واپس لینے پر مجبور کیا کیوں کہ وہ افغانستان میں اپنے ازلی دشمن بھارت کو سرگرم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اخبار کے مطابق اس دورے کے ذریعے امریکہ نے پاکستان کو باور کرایا کہ وہ ناگزیر نہیں ہےاور ایسا کرنا فائدہ مند ثابت ہوا۔

اخبار لکھتا ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے اتنا سخت موقف اپنانے اور ایک طویل عرصے تک اس پر قائم رہنے میں ایک اہم کردار سیاسی حکومت کا بھی تھا جسے خدشہ تھا کہ اگر اس نے امریکہ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا تو اسے سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکام امریکہ کے ساتھ جوڑ توڑ کرنے اور اپنے عارضی مفادات حاصل کرنے کے لیے ملک میں اسلام پسند اور امریکہ مخالف جذبات کا پنڈورا باکس کھول تو دیتے ہیں لیکن اس کی سب سے زیادہ قیمت خود انہیں ہی چکانی پڑتی ہے۔


کیا مصر، اسرائیل امن معاہدہ ختم ہونے کو ہے؟

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک مضمون میں مصر میں اسلام پسند صدر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مصر اور اسرائیل کے ممکنہ تعلقات کا تجزیہ کیا ہے۔

مصر کے نو منتخب صدر محمد مرسی


اخبار لکھتا ہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ اخوان المسلمون کے محمد مرسی کے صدر بننے کے بعد مصر اور اسرائیل کے درمیان موجود امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ لیکن اخبار کے مطابق اگر فریقین سمجھ داری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو مصر میں آنے والی اس سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان حقیقی امن کے قیام کی شروعات ہوسکتی ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' کے مضمون نگار کے مطابق 'کیمپ ڈیوڈ' کا امن معاہدہ دو ملکوں کے درمیان نہیں ہوا تھا بلکہ اسرائیل اور مصر کے ایک فرعون – یعنی حسنی مبارک - کے درمیان طے پایا تھا جس کے نتیجے میں قائم ہونے والا امن مصنوعی ہے۔
'کیمپ ڈیوڈ' کا امن معاہدہ دو ملکوں کے درمیان نہیں ہوا تھا بلکہ اسرائیل اور مصر کے ایک فرعون – یعنی حسنی مبارک - کے درمیان طے پایا تھا
واشنگٹن پوسٹ


اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو آٹھ کروڑ مصریوں کے بجائے ایک آمر حکمران کے ساتھ امن معاہدہ کرنا بظاہر آسان لگتا ہے لیکن یہ ایک احمقانہ سوچ ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ مصر کے معاملات ہمیشہ ایک ڈکٹیٹر یا کسی اور فوجی جنرل کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتے اور لامحالہ اقتدار عوامی نمائندوں کے پاس ہی آنا ہوتا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ محمد مرسی اور ان کی جماعت اخوان المسلمون کو بھی اپنے موقف اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ انہیں طالبان بننے کے بجائے ترکی کے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا اور اسرائیل کے ساتھ پائیدار امن کے لیے نیک نیتی سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب مصر میں سخت گیر اسلام پسند اور اسرائیل میں مذہبی قوم پرست اقتدار میں ہیں، یہ ذمہ داری دونوں فریقوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مصر اور اسرائیل کے درمیان ماضی میں طے پانے والے 'کیمپ ڈیوڈ' معاہدے کے لیے اپنی اپنی عوام کی تائید حاصل کریں اور خطے میں پائیدار امن کی بنیاد رکھیں۔