پاک امریکی تعلّقات پر’واشنگٹن پوسٹ‘ کے معروف کالم نگار ڈیوڈ اِگنے ٹیس کہتے ہیں کہ سالہا سال کی جذباتی رفاقت کے بعدایسا لگ رہا ہے کہ اس وقت دونوں ملک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں اور باہمی تعلّقات کو قدرے مختلف سمت اور ایک حقیقت پسندانہ دائرہء کار کی طرف لے جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
پچھلے کئی مہینوں سے لگ رہاہے کہ دونوں اپنےدرمیان اس بڑھتےہوئے فاصلے پر مطمئن ہیں اور پاکستانی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی باہمی تعلّقات کا جائزہ لے رہی ہے۔
کالم نگار کے خیال میں گردوغبارچھٹ جانے کے بعدحالات جس معمول پرآئیں گے وہ ایک امریکی عہدہ دار کے بقول، ’ایک نیا معمُول ہوگا، جس میں دونوں فریق پھر سے ایک دوسرے کے تعاون کریں گے۔ لیکن، اس تعاون کی شدّت بھی کم ہوگی اوریہ نظر بھی کم آئے گا‘۔
’اس مرحلے کی تکمیل کے لئے دونوں طرف سے تین کلیدی امُور پرخاموشی کے ساتھ مصالحت کرنی ہوگی۔ یعنی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں، افغانستان کو سرحد تک رسائی اورطالبان کے ساتھ مصالحتی مذاکرات پر اور ان میں سے ہر ایک پر ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنا پڑے گا، جس کی بدولت پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ اور امریکہ کےسیکیورِٹی کے مفادات کے درمیان توازُن پیدا کرنا ممکن ہو‘۔
جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلُق ہے، پاکستان پہلے ہی ’شمسی ہوائی اڈّے‘ سےامریکی ڈرون طیارے نکال چُکا ہےاورامریکہ افغانستان کے اڈّوں سےڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن، حالیہ دنوں میں ان کی تعداد کم ہو گئی ہے، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پاکستان کو شکایت کا کم موقع مل رہا ہے۔
جہاں تک سرحدی راستے کھولنے کا سوال ہے، پاکستانیوں نےنومبرمیں ان راستوں کو یہ سوچ کر بند کیا تھا کہ یہ ان کا تُرُپ کا پتہ ہے۔ لیکن، افغانستان میں امریکی فوجوں کورسد پہنچانے کے لئے دوسرا راستہ استعمال کیا گیا ہے جوروس اوراس کے جنوبی پڑوسیوں سے افغانستان جاتا ہے۔
البتہ، اس متبادل راستے میں یہ قباہت ہے کہ اس پرزیادہ لاگت آتی ہےاوراس کے ذریعے دس سال سے جمع ہونے والا پرانا سازو سامان نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس کا امکانی حل یہی ہے کہ پاکستان یہ راستے دوبارہ کھولے اوراس کی فیس وصول کرے اور آمدنی کا نیا ذریعہ پیدا کرے۔ اس سے پہلے بھی ان گذر گاہوں سے پاکستان کو روزانہ دس لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی تھی ۔
ڈیوڈ اگ نے ٹیس کا کہنا ہے کہ امریکہ ایک سال سےخاموشی کے ساتھ طالبان قیادت کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔اور وہ قطر میں طالبان کےایک دفتر قائم ہونے پر تیار ہو گیا۔ لیکن اس پر ابھی پاکستان کا ردّعمل واضح نہیں ہے
افغانستان میں امن کے عمل پر’واشنگٹن ٹائمز‘ میں اشیش کُمار سین رقمطراز ہیں کہ اس کے کلیدی فریق یعنی امریکہ، پاکستان، افغان صدر اور طالبان کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ عمل ڈگمگا رہا ہےاوباما انتظامیہ نےکوشش کی تھی کہ منصوبے کے مطابق2014کے آخر تک فوجیں ہٹانےسے قبل ہی طالبان کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے۔ لیکن، باہمی شکوک کی وجہ سےیہ کوششیں تعطّل کا شکارمعلوم ہوتی ہیں۔
چنانچہ، مغرب کی حامی کابل حکومت کے ساتھ طالبان کی صلح کرانے میں ناکامی کی وجہ سے افغانستان بھی اُسی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے،جس طرح امریکی فوجیں ہٹائے جانے کے بعدعراق میں ہوا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ امن کی کوششیں اس وجہ سے بھی خطرے میں پڑگئی ہیں کیونکہ، امریکہ نے طالبان کے اس مطالبے پر کوئی قدم نہیں اٹھایا کہ ان کے پانچ قیدیوں کو گوانتانوبےسے قطر منتقل کیا جائے۔
ادھر، افغان عہدہ داروں کا کہنا کہ اگر امن کے عمل کی کامیابی یقینی بنانا مقصود ہے تو پھریہ عمل افغان قیادت میں ہونا چاہئے۔ ایک افغان عہدہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اب تک طالبان کے ساتھ بات چیت کی نوعیت تحقیقی تھی۔اور یہ ضروری ہے کہ بات چیت صحیح لوگوں کے ساتھ ہو۔
اوساما بن لادن کے ایبٹ آباد کے اس مکان میں رہائش اوربالآخرامریکی سپیسل فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بارے میں ایک ریٹائرڈ پاکستانی بریگیڈیر شوکت قادر کی ذاتی تحقیق کی ایک تفصیلی رپورٹ نیو یارک ٹائمز میں چھپی ہے، جس کے مطابق بن لادن کی پانچویں اور سب سے چھوٹی بیوی عمل احمد السادہ نےپاکستانی تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ سنہ 2002 میں اس کے شوہر کا آپریشن ہوا تھا اور اس کے ایک گُردے کی پیوند کاری ہوئی تھی۔
اگر یہ دعویٰ صحیح ثابت ہوا تو گردوں کے مریض بن لادن کے اتنے عرصے زندہ رہنے کا سبب واضح ہو جاتاہے۔
لیکن، رپورٹ کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بن لادن کی کون مدد کر رہا تھا۔ شوکت قادر کو یہ بھی معلوم ہوا کہ بن لادن کی بیویوں کو ایک دوسرے پر بالکل اعتبار نہیں تھا۔ خاص طور پر مس سادہ ، جو بن لادن کی چہیتی تھی، اور عمر میں اس سے کہیں بڑی سوکن خیریہ صابر کے درمیان، جو علیٰحدہ منزل میں رہتی تھی۔ تفتیش کے دوران مس سادہ نے خیریا صابر پر اپنے شوہر سے دغا کرنے اور اس کا راز امریکی انٹلی جنس کو فاش کرنے کا الزام لگایا ۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: