کرسچن سائینس مانیٹر کہتا ہے کہ مصر کے نئے صدر اور فوج کے درمیان یہ محاذ آرائی متوقّع ضرور تھی، لیکن اتنی جلد نہیں
کرسچن سائنس مانیٹر
مصر میں وزیر دفاع فیلڈ ماشل محمد حسین تنتاوی کی نئے صدر محمد مرسی کے ہاتھوں اچانک برطرفی پر کرسچن سائینس مانیٹر کہتا ہے کہ نئے صدر اور فوج کے درمیان یہ محاذآرائی متوقّع ضرور تھی، لیکن اتنی جلدنہیں۔اور فوج کی طرف سے ابھی اس پر کسی قسم کا ردّ عمل نہیں آیا ہے، فیلڈ مارشل طنظاوی ، مسلّح افواج کی اس طاقتور سپریم کونسل کے سربراہ تھے۔ جس کا نئے صدر کے انتخاب تک ملک پر پور ا تصرّف تھا ، اورطنظاری کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کی تمام شاخوں کے اُن قائم مقام سربراہوں کو بھی بر طرف کر دیا گیا ہے ، جو اس کونسل کے رکن تھے، ان لوگوں کی برطرفی کے ساتھ ساتھ نئےصدر نےیک طرفہ طور پراس کونسل کے جاری کردہ آئینی فرمان بھی یکسر منسوخ کر دئے ہیں ۔ اس کونسل نے قانون سازی کے اختیارات صدر کے ہاتھو ں سے چھین لئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی تک کسی فریق کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے، نہ فوجوں کی کوئی نقل و حرکت ہوئی ہے۔ اخوان المسلمین تنظیم کئی عشروں تک کالعدم تحریک تھی، اور مسلّح افواج پچاس برس تک اس کی سرکوبی کرتی رہیں، لیکن اب دنیائے عرب کے اس سب سے بڑے ملک کے تمام سیاسی اختیارات صدر مرسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ جن میں قانون وضع کرنا، آئین مرتّب کرنے والی کمیٹی کے ارکان نامزد کرنا، خارجہ حکمت عملی تشکیل دینا اور بظاہر اپنی مرضی سے فوج کے اعلیٰ افسروں میں ردّو بدل کرنا شامل ہے۔
اخبا ر کہتا ہے کہ اس سال فوجی کونسل کی حمایت سے عدالت کے ہاتھوں مصر کی نو منتخب پارلیمنٹ کی برطرفی کے بعد صدارت کے خلاف توازن برقرار رکھنے کا مختار ادارہ صرف عدالتیں ہیں، لیکن کیا عدالتیں فوج کی کُھلی حمایت کی عدم موجودگی میں صدر مرسی کے اقدامات کے خلاف کوئی قدم اُٹھائیں گی۔ اخبار کے خیال میں اس کا بُہت کم امکان ہے البتہ ایک ایسے ملک میں کُچھ بھی ہو سکتا ہے ، جس کی نہ کوئی جمہوری روایات ہیں اور نا ہی سویلین سیاسی حاکمیت کی کوئی تاریخ۔
نیو یارک کی سنچُری فاؤنڈیشن کے ایک فیلو اور مصر ی امور کے ماہر ، مائیکل وحید الحنّا کے حوالے سے کرسچن سائنیس مانٹر کہتا ہے کہ اب تک فوج کی طرف سے یہ واضح اشارہ ملتا رہا ہے کہ وہ اقتدار کی تمام کُنجیاں اخوان المسلمین کو نہیں سونپ رہی ، لیکن اُس کے خلاف ہونے والی اس کاروائی کی فوج کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی ِ کئی اعتبار سے یہ اقدام سویلین حکام کی طرف سے فوجی جنرلوں کے مقابلے میں اپنے تسلّط کو مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ اور اگر یہی کُچھ ہوا ہے۔تو یہ وہی بات ہے جس پر امریکہ پچھلے ایک سال سے زور دیتا آیا ہے۔ لیکن اگر اس اقدام سے فوج کو غیر مؤثر کردیا گیا ہے۔ تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس میں امریکہ کو لچسپی ہو۔خا ص طور پر اسرائیل کی طرف اخوان کے رویّے اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ حمّاس ، جو غزّہ کی پٹی پر برسر اقتدار ہے، اخوان ہی کی پیدا کردہ تنظیم ہےاور اب صدر مرسی فوج سے کہہ رہے ہیں ، میں جیت گیا ہوں ، اور آپ ہار گئے ہیں اور فوج کی طرف سے کسی جوابی کاروائی کی عدم موجودگی میں صدر کا اعلان موثّر ہونے کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز
اسی موضوع پر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اتوار کے روز صدر مرسی نےملک کے فوجی ڈھانچے میں جن ممتاز شخصیات کو بیک جنبش قلم برطرف کر دیا ۔ اُ ن میں سب سے حیران کن فیلڈ مارشل طنطاوی کی بر طرفی تھی، جو معزول صدر حسنی مبارک کے اہم اتحادی تھے اور اس عہدے پر 20 سال سے فائز تھے۔ اور جنہیں سنہ 2011 کی بغاوت کے بعد فوج کو مزید طاقت ور بناناے کا معمار مانا جاتا تھا۔ چنانچہ تجزیہ کار ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ آیا مصری حکومت میں یہ بھاری ردّوبدل فوج اور صدر کے مابین کسی بھاری پُھوٹ کا نتیجہ ہے ۔ یا پھر احتیاط سے طے پانے والا کوئی باہمی سمجھوتہ، اخبار کہتا ہے کہ صدر مرسی نےجو اختیارات اپنے لئے حاصل کر لئے ہیں ،وُہ اُن کی مدد سے مصر کے لئے ایک نیا آئین مرتّب کرنے کے لئےایک نیا پینل تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر موجودہ پینل سے یہ کام سرانجام نہ ہو سکا۔اس وقت صدر کے پاس قانون بنانے کے وسیع اختیارات ہیں لیکن جب ایک نئی پارلیمنٹ کے منتخب ہوگی، تو وُہ یہ اختیارات اُس کو سونپ دیں گے۔
واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ فیلڈ مارشل طنطاوی کی برطرفی سے مصر میں امریکہ کے ایک پُرانےہم سُخن کوایک ایسے ملک میں بر طرف کردیا گیا ہے ۔ جو امریکہ سے دسیوں اربوں ڈالر کی فوجی امداد حاصل کر چُکا ہے ۔ تاکہ اس کے عوض وُہ اسرائیل کے ساتھ امن برقرار رکھے۔اخبار کے خیال میں ایسا لگ رہا ہے کہ اتوار کے واقعات کا وزیر دفاع لیون پینیٹا کو کوئی شُدھ بُدھ نہ تھی، کیونکہ دو ہفتے قبل جب وُہ مصر کے دورے سے لوٹے تھے، تو اُن کا تاثُّر یہ تھا کہ طنطاوی اور مرسی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
مصر میں وزیر دفاع فیلڈ ماشل محمد حسین تنتاوی کی نئے صدر محمد مرسی کے ہاتھوں اچانک برطرفی پر کرسچن سائینس مانیٹر کہتا ہے کہ نئے صدر اور فوج کے درمیان یہ محاذآرائی متوقّع ضرور تھی، لیکن اتنی جلدنہیں۔اور فوج کی طرف سے ابھی اس پر کسی قسم کا ردّ عمل نہیں آیا ہے، فیلڈ مارشل طنظاوی ، مسلّح افواج کی اس طاقتور سپریم کونسل کے سربراہ تھے۔ جس کا نئے صدر کے انتخاب تک ملک پر پور ا تصرّف تھا ، اورطنظاری کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کی تمام شاخوں کے اُن قائم مقام سربراہوں کو بھی بر طرف کر دیا گیا ہے ، جو اس کونسل کے رکن تھے، ان لوگوں کی برطرفی کے ساتھ ساتھ نئےصدر نےیک طرفہ طور پراس کونسل کے جاری کردہ آئینی فرمان بھی یکسر منسوخ کر دئے ہیں ۔ اس کونسل نے قانون سازی کے اختیارات صدر کے ہاتھو ں سے چھین لئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی تک کسی فریق کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے، نہ فوجوں کی کوئی نقل و حرکت ہوئی ہے۔ اخوان المسلمین تنظیم کئی عشروں تک کالعدم تحریک تھی، اور مسلّح افواج پچاس برس تک اس کی سرکوبی کرتی رہیں، لیکن اب دنیائے عرب کے اس سب سے بڑے ملک کے تمام سیاسی اختیارات صدر مرسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ جن میں قانون وضع کرنا، آئین مرتّب کرنے والی کمیٹی کے ارکان نامزد کرنا، خارجہ حکمت عملی تشکیل دینا اور بظاہر اپنی مرضی سے فوج کے اعلیٰ افسروں میں ردّو بدل کرنا شامل ہے۔
اخبا ر کہتا ہے کہ اس سال فوجی کونسل کی حمایت سے عدالت کے ہاتھوں مصر کی نو منتخب پارلیمنٹ کی برطرفی کے بعد صدارت کے خلاف توازن برقرار رکھنے کا مختار ادارہ صرف عدالتیں ہیں، لیکن کیا عدالتیں فوج کی کُھلی حمایت کی عدم موجودگی میں صدر مرسی کے اقدامات کے خلاف کوئی قدم اُٹھائیں گی۔ اخبار کے خیال میں اس کا بُہت کم امکان ہے البتہ ایک ایسے ملک میں کُچھ بھی ہو سکتا ہے ، جس کی نہ کوئی جمہوری روایات ہیں اور نا ہی سویلین سیاسی حاکمیت کی کوئی تاریخ۔
نیو یارک کی سنچُری فاؤنڈیشن کے ایک فیلو اور مصر ی امور کے ماہر ، مائیکل وحید الحنّا کے حوالے سے کرسچن سائنیس مانٹر کہتا ہے کہ اب تک فوج کی طرف سے یہ واضح اشارہ ملتا رہا ہے کہ وہ اقتدار کی تمام کُنجیاں اخوان المسلمین کو نہیں سونپ رہی ، لیکن اُس کے خلاف ہونے والی اس کاروائی کی فوج کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی ِ کئی اعتبار سے یہ اقدام سویلین حکام کی طرف سے فوجی جنرلوں کے مقابلے میں اپنے تسلّط کو مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ اور اگر یہی کُچھ ہوا ہے۔تو یہ وہی بات ہے جس پر امریکہ پچھلے ایک سال سے زور دیتا آیا ہے۔ لیکن اگر اس اقدام سے فوج کو غیر مؤثر کردیا گیا ہے۔ تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس میں امریکہ کو لچسپی ہو۔خا ص طور پر اسرائیل کی طرف اخوان کے رویّے اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ حمّاس ، جو غزّہ کی پٹی پر برسر اقتدار ہے، اخوان ہی کی پیدا کردہ تنظیم ہےاور اب صدر مرسی فوج سے کہہ رہے ہیں ، میں جیت گیا ہوں ، اور آپ ہار گئے ہیں اور فوج کی طرف سے کسی جوابی کاروائی کی عدم موجودگی میں صدر کا اعلان موثّر ہونے کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز
اسی موضوع پر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اتوار کے روز صدر مرسی نےملک کے فوجی ڈھانچے میں جن ممتاز شخصیات کو بیک جنبش قلم برطرف کر دیا ۔ اُ ن میں سب سے حیران کن فیلڈ مارشل طنطاوی کی بر طرفی تھی، جو معزول صدر حسنی مبارک کے اہم اتحادی تھے اور اس عہدے پر 20 سال سے فائز تھے۔ اور جنہیں سنہ 2011 کی بغاوت کے بعد فوج کو مزید طاقت ور بناناے کا معمار مانا جاتا تھا۔ چنانچہ تجزیہ کار ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ آیا مصری حکومت میں یہ بھاری ردّوبدل فوج اور صدر کے مابین کسی بھاری پُھوٹ کا نتیجہ ہے ۔ یا پھر احتیاط سے طے پانے والا کوئی باہمی سمجھوتہ، اخبار کہتا ہے کہ صدر مرسی نےجو اختیارات اپنے لئے حاصل کر لئے ہیں ،وُہ اُن کی مدد سے مصر کے لئے ایک نیا آئین مرتّب کرنے کے لئےایک نیا پینل تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر موجودہ پینل سے یہ کام سرانجام نہ ہو سکا۔اس وقت صدر کے پاس قانون بنانے کے وسیع اختیارات ہیں لیکن جب ایک نئی پارلیمنٹ کے منتخب ہوگی، تو وُہ یہ اختیارات اُس کو سونپ دیں گے۔
واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ فیلڈ مارشل طنطاوی کی برطرفی سے مصر میں امریکہ کے ایک پُرانےہم سُخن کوایک ایسے ملک میں بر طرف کردیا گیا ہے ۔ جو امریکہ سے دسیوں اربوں ڈالر کی فوجی امداد حاصل کر چُکا ہے ۔ تاکہ اس کے عوض وُہ اسرائیل کے ساتھ امن برقرار رکھے۔اخبار کے خیال میں ایسا لگ رہا ہے کہ اتوار کے واقعات کا وزیر دفاع لیون پینیٹا کو کوئی شُدھ بُدھ نہ تھی، کیونکہ دو ہفتے قبل جب وُہ مصر کے دورے سے لوٹے تھے، تو اُن کا تاثُّر یہ تھا کہ طنطاوی اور مرسی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔