اگلے سال کے مالی سال کے لئے صدر براک اوبامہ نے کانگریس کو 3 اعشاریہ 8 ٹریلین ڈالر کا جو بجٹ بھیجا ہے۔ اس کے تحت دولتمندوں پر نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ ٹیکس لگانے کے قواعد بدلے جائیں گےاور قلیل میعاد کے لئے ایسے اخراجات اٹھائے جائیں گے جن کا مقصد روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور متوسّط طبقے کو امداد فراہم کرنا ہے
اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق کانگریس کے ری پبلکن لیڈروں اور صدارتی امّید واروں نے اس کو ردّ کرتے ہوئے اس کو ایک ایسی دستاویز قرار دیا ہے، جس میں قوم کے قرضے کے مسلے کو حل کرنے لئے سنجیدگی سے کُچھ بھی نہیں کیا گیا۔ وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ بجٹ سے وہائیٹ ہاؤس کے اس پُختہ یقین کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ کہ نومبر کے انتخابات میں ووٹروں کو اس بات کا قا یل کیا جا سکتا ہے ، کہ قلیل وقتی نقطہء نگاہ سے وفاقی قرضے کو کم کرنے کے لیے قدم اُٹھائے جائیں اور جیسا کہ طلبہ ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ اس وقت ہماری معیشت بڑھ رہی ہے، اور تیزی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بحالی کی اس رفتار کو بہر حال برقرار رکھا جائے۔
مسٹر اوباما کی بجٹ تجاویز کے تحت اگلے دس سال میں ایک اعشاریہ سات ٹریلین کے برابر نئے محاصل جمع کئے جا ئیں گے بشرطیکہ بُش دور کی ٹیکسوں کی کٹوتی ایسے خاندانوں کے لئے ختم کی جائے۔ جن کی آمدنی ڈھائی لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے اور ایسے خاندانوں کی ٹیکس کی شرح 15 فی صد سے بڑھا کر 31 فی صد کر دینے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں مستقبل میں لگائے جانے والے والے ٹیکسوں کے لئے راہنما اصول بھی ہیں
اخبار یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ صدر اوباما کے بجٹ میں ایک طرف زیادہ آمدنیوں والے امریکیوں کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز ہے اور دوسری طرف اخراجات میں غیر معمولی کٹوتی کے لئے کہا گیاہے۔تاکہ پانچ سال کے اندر پہلی مرتبہ سالانہ خسارے کو ایک ٹریلین ڈالر کی سطح پر لایا جائے۔ اخبار کے خیال میں اسی وجہ سے اس کے کانگریس میں پاس ہونے کا عملی طور پر کوئی امکان نہیں ہے ۔البتہ انتخابات کے رواں سال میں حکومت چلانے کے دومختلف نظریات پر بحث کے خطوط متعیّن ہونگے ۔ اور یہ طے ہوگا ٴکہ آیا صدر اوباما مزید چار سال کے لیے منتخب ہونگے یا نہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ صدر اوباما کے بجٹ میں خامیاں ضرور ہیں۔ لیکن یہ بہت سی متبادل تجاویز سے بہتر ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ قلیل وقتی نقطہء نظر سے نصب العین اقتصادی افرائش ہونا چاہئے، نہ کہ خسارے کو کم کرنا ، جو ایک طویل وقتی چیلنج ہے ۔ صدر نے اپنے بجٹ میں، ناکافی ہی سہی ،لیکن سنجیدہ کوشش کی ہے کہ ملک کو ایسی راہ پر ڈالاجائےجسے برقرار رکھا جاسکے۔ ری پبلکنز کے بر عکس ان کے بجٹ میں اخراجات کم کرنے ، اور محاصل میں اضافہ کرنے کی ضرورت کا اعتراف کیا گیا ہے اس ملک کی معاشی بحالی کے لئے امداد کی ضرورت ہے جو بُش دور کے ٹیکسوں میں دی ہوئی چُھوٹ کو ختم کرنے سے ہی ممکن ہوگی۔
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اس ری پبلکن طنز کے باوجود کہ اوباما کا بجٹ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، انتخابی سال می جو پیش ہوتا ہے ۔ اس سے یہ توقّع کی جاتی ہے کہ ووٹروں کو ترجیحات سے روشناس کرایا جائے ۔اور یہ کانگریس میں ری پبلکن لیڈروں کی دولتمندوں کی ترجیحات کو تحفّظ فراہم کرنے کے بالکل برعکس ہے۔ جس میں طویل وقتی نقطء نگاہ سےخسارے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی کمزور کی بحالی کو اوّلیں ترجیح دی گئی ہے ۔ اور امریکیوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے ساڑھے تین سو بلین کی رقم، سڑکوں ، ریلوے لائنوں، اور سکولوں کی تعمیر کے لئے مختص کی گئی ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے لئے گئے ہیں، ان میں عوام نے صدر اوباما کے اس موقّف کو سراہا ہے کہ پہلے معیشت کی تعمیر نو ہونی چاہئے اور جب اس کی اساس مضبوط تر ہو جائے تو پھر خسارے سے نمٹا جائے۔