’نیو یارک ٹائمز‘کہتا ہے کہ اُس کے لیے سی آئی اے کے اِس دعوے کو درست ماننا مشکل ہے کہ سال بھر تک پاکستان میں ڈرون حملوں کی جو مہم چلائی گئی اُس میں اُس کا ریکارڈ صاف ہے اور اِن حملوں میں ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستانی صحافی اور خود مختار ماہرین بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ڈرون پروگرام کی حمایت کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ثبوت کی عدم موجودگی میں اِس دعوے سے امریکی عزائم کے بارے میں شبہات جنم لیتے ہیں اور پاک امریکی تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے دہشت گردوں کے خلاف Shadow Warمیں زبردست اضافہ کردیا ہے اور اِس کے لیے درجن بھر ملکوں میں اُن کا سراغ لگانے کے لیے فوج اور سی آئی اے کا استعمال کیا ہے۔ اور اِس روباٹک جنگ میں پاکستان، طالبان اور القاعدہ عسکریت پسندوں کے ذاتی اڈے کی حیثیت سے اہم ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ سی آئی اے کے دعوے کے مطابق مئی 2010ء سے پاکستان میں ڈرون حملوں میں600جنگجو ہلاک ہوئے اور ایک بھی ایسا شخص ہلاک نہیں ہوا جو جنگجو نہ ہو۔
سنہ 2001 سے لے کر اب تک کے اعداد و شمار حیران کُن ہیں۔ یعنی 2000عسکریت پسند اور 50غیر مبارز افراد ۔
اخبار نے لندن کی سٹی یونیورسٹی کی ایک نئی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کہانی اِس سےمختلف ہے اور کہا ہے کہ صدر اوباما نے جِن 230سے زیادہ حملوں کا حکم دیا تھا اُن میں1842ہلاک ہونے والے افراد میں سے بیشتر عسکریت پسند تھے۔ لیکن، کم از کم 218سویلین باشندے تھے۔ اور اگرچہ پچھلے ایک سال کے دوران شہریوں کی ہلاکت میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اِس بات کے معتبر شواہد موجود ہیں کہ کم از کم 45غیر مبارزشہری بھی ہلاک ہوئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں متنازع رہےہیں جِن سے امریکہ کے خلاف جذبات بڑھکتے ہیں اور واشنگٹن نے اِس معاملے میں زیادہ شفاف رویہ اختیار کرنے سے جو انکار کیا ہے اُس کا الٹا اثر ہوا ہے۔
اخبار نے واشنگٹن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے بارے میں جِس قدر زیادہ تفصیلات ممکن ہو فراہم کرے، جب کہ پاکستان کی حکومت کو اخبار کا یہ مشورہ ہے کہ وہ یہ دوغلہ پن ترک کردے جِس کے تحت وہ پرائیویٹ میں إِن حملوں کی حمایت کرتا ہے اور پبلک میں اُن کی مذمت کرتا ہے۔
’شکاگو ٹربیون‘ نے صدر اوباما کی گِرتی ہوئی مقبولیت اور اُس رجحان کو روکنے کے لیے اُن کی مساعی پر سنڈیکٹڈ کالم نگار E J Dionne کا ایک کالم شائع کیا ہے جِس میں وہ کہتے ہیں کہ صدر اوباما اور اُن کے وفادار ساتھیوں کو اُن کی صدارت کے اِس مایوس کُن لمحے سے بیزاری ہے اور وہائٹ ہاؤس کو اِس بات کا پورا ادراک ہے کہ اوبامہ کو کس قدر خوفناک کشمکش کا سامنا ہے اور جو مسائل اُنھیں درپیش ہیں وہ کس قدر گھمبیر ہیں اور اِس کا سب سے بڑا پہلو امریکہ کے قرض نادہندہ بننے کا خطرہ تھا جو کہ اب قومی قرض کی حد بڑھ جانے سے ٹل گیا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اِس سمجھوتے کے بعد وہاؤٹ ہاؤس اب اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہا ہے اور صدر کے پاس اب حالات پر قابو پانے کی وہ گنجائش ہے جو پہلے اُنھیں حاصل نہ تھی۔
اِی جے ڈیون کہتے ہیں اب جب کہ مذاکرات کا مرحلہ ختم ہوگیا ہے اوباما کو انتخابات میں کامیابی پر توجہ مرکوز کرنی ہے جس میں اُن کی مسابقت کی صلاحیت بروئے کار لائی جائے۔
انتخابات کے قواعد کسی بھی کھیل کے قوائد کے مشابہ ہیں جس میں اوباما مشاق ہیں۔ اِس مقابلے میں امیدوار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اُن کا توازن بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر کسی کو شبہ ہے کہ آیا اوباما یہ کرسکتے ہیں تو اُسے ہلری کلنٹن یا جان مکین سے پوچھنا چاہیئے۔
اخبار ’ٹمپا بے ٹربیون‘ ٹمپا شہر میں بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی وبا پر ایک اداریے میں کہتا ہے کہ بھیک مانگنا ایک پیشے کی شکل اختیار اختیار کر گیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تمام بھکاری واقعی بے گھر ہیں۔ ایسے شواہد ہیں کہ سڑکوں کے چوراہے، ٹھگوں کے قبضے میں ہیں جو اُنھیں کرائے پر بھکاریوں کو دیتے ہیں اور یہ بھکاری وہاں شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور ٹریفک کی آمد ورفت میں خلل ڈالتے ہیں۔
اخبار نے اِس تجویز کی حمایت کی ہے کہ پیر سے ہفتے تک بھیک مانگنا مکمل طور پر ممنوع قراردی جائے۔ صرف اتوار کو اِس کی اجازت دی جائے، جب بیشتر اخبارات فروخت کیے جاتے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: