امریکی اخبارات سے: عراق جنگ اور غیر یقینی ترکہ

امریکی اخبارات سے: عراق جنگ اور غیر یقینی ترکہ

جنگ میں جیسے جیسے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھتی گئی ،تلخیاں بھی بڑھتی گئیں۔ جنگ کی طوالت اور فوجوں کو بار بار وہاں متعیّن کرنے کی وجہ سے ملک اور اس کے وسائل پر بہت بوجھ پڑا: نیو یارک ٹائمز

عراق سےامریکی فوجوں کی مکمّل واپسی پر ’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اس جنگ نےاپنے پیچھےغیر یقینی ترکہ چھوڑا ہے۔ امریکی اس پرغور کر رہے ہیں کہ اتنی بھاری قیمت ادا کرنے اور اتنی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے بعد انہیں کیا حاصل ہوا۔ عراقی ڈکٹیٹر صدّام حسین کو تو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا، لیکن وسیع پیمانے کی تباہی مچانے والے ہتھیار نہ ملنے کی وجہ سے اس جنگ کا اصلی جواز تو غلط ثابت ہوگیا۔

جنگ میں جیسے جیسے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھتی گئی، تلخیاں بھی بڑھتی گئیں۔

جنگ کی طوالت اور فوجوں کو بار بار وہاں متعیّن کرنے کی وجہ سے ملک اور اس کے وسائل پر بہت بوجھ پڑا، جِس کےنتیجے میں اب یہ بات محلّ نظر ہے کہ آیا امریکہ آئندہ ایسی جنگوں میں اتنے بھاری پیمانے پرشرکت پر تیا ر ہوگا۔ اخبارکہتا ہے کہ اس وقت عراق کے جو کوائف ہیں وُہ حالت جنگ کے تو نہیں ہیں لیکن وہ پُر امن بھی نہیں ہیں۔

اخبارکہتا ہےکہ عراق کی جنگ میں ایک لاکھ سےزیادہ عراقی شہری ہلاک ہوئےاور اس سے بھڑکنے والے تشدد کی وارداتوں میں اب نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، خاص طور پرسنہ 2007 کے سال کے بعد سے اُس وقت ماہانہ حملوں کی تعداد 750 تک پہنچ چکی تھی، جِن میں بم پھٹنے، راکیٹوں کےحملے اورقتل کی وارداتیں شامل ہیں۔

اخبار کی اطلاع ہے کہ اس وقت بھی عراق میں لگ بھگ ایک درجن باغی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اور ملک اب بھی تشدّد اور سیاسی بےعملی کا شکار ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی شناخت اس کے فرقوں سے ہے اور جس کا مستقبل جو بھی ہو، اب اس کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔

اسی موضوع پر ’ڈیٹرائٹ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو سوچا تھا کہ صدّام حسین کے پاس تباہی لانے والے ہتھیا ر ہیں، وہ اس کے پاس سے نہیں نکلے اور اُس ملک کوجمہوریت میں بدلنے کا عمل ابھی تکمیل سے بہت دور ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ہماری آس تو یہی ہوتی ہےکہ امریکہ جب جنگ میں کُود پڑتا ہے اس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنے اور قربانی دینے میں وہ حق بجانب ہوگا۔ لیکن، عراق کے بارے میں ہم یہ بات یقین کےساتھ نہیں کہہ سکتے۔ بلا شبہ صدام اور اس کی خُونیں حکومت کا تختہ الٹا جانا ایک مثبت امر ہے۔ لیکن، وہاں کےعوام کو آزاد کرانے میں عراق کے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی جانیں گئیں اور ملک کا ایک وسیع علاقہ برباد ہو گیا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک معتبر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عراق پرحملےسے القاعدہ کوافغانستان میں پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا، جس نےاس ملک میں جاری لڑائی میں کامیابی حاصل کرنا اور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

اس جنگ کی وجہ سے امریکہ کو بھاری مالی بوجھ اٹھانا پڑا ہے اور اس پر جتنا پیسہ خرچ ہوا ہے اس سے امریکہ کے بیشتر قرض کی ادائگی ہو سکتی تھی ۔ اور، بالآخر، اِس سے جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ غیر یقینی ہے، عراق کا مستقبل غیر یقینی ہے اور امریکہ کے بس سے باہر ہے۔ صدر اوباما اور وزیر اعظم نوری المالکی کے درمیان کوئی ایسا سمجھوتہ نہ ہو سکا، تاکہ عراق کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئےوہاں ایک اتحادی فوج تعینات رہتی۔ دونوں لیڈروں کے درمیان کوئی مضبوط رشتہ نہیں ہے۔

اخبار کے خیال میں عراق کی جنگ کے بارےشائد بہترین مشاہدہ صدر اوباما کے ان الفاظ میں ہےکہ جنگ چھیڑنا جنگ بند کرنے کے مقابلے میں آسان ہے۔

اور آخر میں ’سینٹ لُوئی ڈسپیچ‘ کی یہ خبر کہ ریاست واشنگٹن کے ایک قصبے میں ایک سٹور کے 33 سالہ سیکیورٹی گارڈ ایک چور کوپکڑ نے کی کوشش کی تو چور نے ایک چھوٹی سی کلہاڑی نکالی اوراس کا بایاں کان کاٹ کر پھینک دیا ۔ اس کے بعد چور بھاگ گیا ۔ لیکن، جلد ہی پکڑا گیا اور ڈکیتی اور چوری کے الزام میں کاؤنٹی جیل میں ڈال دیا گیا۔

ادھر، گارڈ نے کٹا ہوا کان اٹھا کر اسپتال جا کر ڈاکٹروں سے رجوع کیا کہ وہ اسے جوڑ دیں۔لیکن کئ گھنٹوں کی سرجری کے بعد ڈاکٹر اُس کا کان جوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

چنانچہ، اب وہ ایک مصنوعی کان لگوانے کی سوچ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہےکہ اس کی ملازمت کی نوعیت کے پیش نظروہ ہرقسم کے ہتھیاروں سےنمٹنے کے لئے تیار تھا۔ لیکن اس نے کلہاڑی کا کبھی نہ سوچا تھا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: