کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ جیسے جیسے صدارتی انتخابات کا دن قریب آتا جا رہا ہے، ایسے ووٹروں کی تعداد سُکڑتی جارہی ہے جنہوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔
انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون کہتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی وڈیو کے خلاف دنیا بھر میں جو احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وُہ اوبامہ انتظامیہ کی خارجہ حکمت عملی کے لئے سب سے زیادہ سنگین مسلہ بن گئے ہیں۔
اخبار نے انتظامیہ کے سر کردہ عہدہ داروں کے حوالے سے بتا یا ہے۔ کہ انہیں اندازہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان مظاہروں کے سیاسی مضمرات کا پہلے سے اندزہ لگانا مشکل ہے۔ چنانچہ جہاں مسٹر اوبامہ اور اُن کے مشیر عرب لیڈروں کو اس بدامنی کو فرو کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں ، کہ آیا انہیں اس خطے میں سفارتی سرگرمیوں میں کُچھ کمی کرنی چاہئے یا نہیں ، اور تجزیہ کار ان کی پالیسی پر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں ، کہ آیا اُنہوں نے دنیائے عرب کے انقلاب کو جمہوریت تک پہنچانے کے عبوری دور میں کافی کُچھ کیا کہ نہیںِ۔
اخبار کہتا ہے کہ اقتدار میں آنےپر مسٹر اوبامہ نے عہد کیا تھا ۔ کہ وہ اسلامی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کریں گے۔ اور قاہرہ میں ان کی تقریر کی بڑی تعریف کی گئی تھی جس میں انہوں نے بھائی چارے کے ایک نئے دور کا نقشہ کھینچا تھا۔البتہ مشرق وسطیٰ میں انقلابا ت کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے لئے وہ تیار نہیں تھے ،پھر بھی انہوں نے مصر کے صدر حسنی مبارک کا تختہ اُلٹنے والے انقلابیوں کا ساتھ دیا اور لبیا میں معمر قذافی کو اقتدار ہٹانے کے لئےوہاں فضائی حملے کرنے کا حکم دیا۔
لیکن اب انہیں ایک طرف جمہوریت کے فروغ کی حمائت کرنے اور دوسری طرف خطےے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کےدرمیان توازن پیدا کرنے کے لئے جد و جہد کرنی پڑ رہی ہے ، کیونکہ بعض آمروں کی جگہ مقبول اسلام پسند پارٹیوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔جن میں سے بعض کا امریکہ کی جانب رویہ غیر دوستانہ ہے۔اور ایسے خطے میں ، جو جمہوریت سے عاری اور اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔انتہا پسندی اور امریکہ دشمنی کے پس مظر میں لبیا کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جار رہا تھا۔ لیکن یہ نمونہ اب مشکوک نظر آنے لگا ہے ، کیونکہ شام میں عوامی تحریک کو کچلنے کی جو خونی کاروائی جاری ہے۔اس کو روکنے میں امریکہ اب تک بے بس ثابت ہوا ہے ،اخبار کہتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی وڈیو کی مزیدتشہیر سے احتجاجی مظاہروں میں اضا فہ ہوگا او رمستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ ہنگاموں میں الجھا رہے گا،،
کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے ۔ کہ جیسے جیسے صدارتی انتخابات کا دن قریب آتا جا رہا ہے، ایسے ووٹروں کی تعداد سُکڑتی جارہی ہے جنہوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ انہیں کسے ووٹ دینا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ رائے عامہ کے کلیدی جائیزوں میں مسٹر رامنی کے مقابلے میں آگے ہیں لیکن اخبار کے خیال میں مجموعی طور پر ابھی کوئی حتمی بات بتانا مشکل ہے۔
این بی سی وال سٹریٹ جرنل کے تازہ ترین استصواب کے مطابق مسٹر اوبامہ اوہیو کی ریاست میں مسٹر رامنی کے مقابلے میں سات پوایئنٹ سے آگے ہیں۔ اور فلوریڈا ور ورجینیا کی ریاستوں مین پانچ پواینٹ سے آگے ہیں
اخبار فلاڈلفیا انکوائیرر امریکہ کے ڈاک کے محکمے کی سنگین مالی مشکلات پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ یہ محکمہ روزانہ اڑھائی کروڑ ڈلر کا نقصان اُٹھا رہا ہے ، اور وُہ ارکان کانگریس کی مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈاک کے نظام کو درپیش بُحران وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اور اس موسم گرما میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ، کہ وہ اپنے ملازمیں کی صحت کی نگہداشت پرآنے والی لاگت کی ادائیگی نہیں کر سکا ، اور جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے ، جب اسے اپنے لاکھوں ملازمین کو پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی رقم ادا کر نا ہو گی
ادھر ای میل اور نامہ و پیام کے دوسرے ذرایع کی مسابقت کی وجہ سے محکمے کو فسٹ کلاس میل استعمال کرنے والے بے شمار گاہکوں کا ہاتھ سے نکل جانے سے آمدنی میں جو بھاری خسارہ ہوا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے ارکان سینیٹ نے اپریل کے مہینے میں اصلاحات کے ایک پیکیج کی منظوری دی تھی۔ جس کی بدودلت یہ ممکن ہو جاتا ،کہ کم از کم دو سال تک خطوں کی تقسیم اگلے روزہو اور ہفتے کے روز بھی ڈاک کی تقسیم برقرار رہے۔ لیکن اخبار نے افسوس سے کہا ہے ۔ کہ ایوان نمائیندگاں میں، جس پر ری پبلکنز کا قبضہ
ہے ابھی تک اس میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ ڈاک کے نظام کو بالکل ناکام ہونے سے بچانے کے یہ اصلاحات نافذ کرنے میں مزید تاخیر نا قابل جواز ہوگی۔
اخبار نے انتظامیہ کے سر کردہ عہدہ داروں کے حوالے سے بتا یا ہے۔ کہ انہیں اندازہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان مظاہروں کے سیاسی مضمرات کا پہلے سے اندزہ لگانا مشکل ہے۔ چنانچہ جہاں مسٹر اوبامہ اور اُن کے مشیر عرب لیڈروں کو اس بدامنی کو فرو کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں ، کہ آیا انہیں اس خطے میں سفارتی سرگرمیوں میں کُچھ کمی کرنی چاہئے یا نہیں ، اور تجزیہ کار ان کی پالیسی پر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں ، کہ آیا اُنہوں نے دنیائے عرب کے انقلاب کو جمہوریت تک پہنچانے کے عبوری دور میں کافی کُچھ کیا کہ نہیںِ۔
اخبار کہتا ہے کہ اقتدار میں آنےپر مسٹر اوبامہ نے عہد کیا تھا ۔ کہ وہ اسلامی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کریں گے۔ اور قاہرہ میں ان کی تقریر کی بڑی تعریف کی گئی تھی جس میں انہوں نے بھائی چارے کے ایک نئے دور کا نقشہ کھینچا تھا۔البتہ مشرق وسطیٰ میں انقلابا ت کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے لئے وہ تیار نہیں تھے ،پھر بھی انہوں نے مصر کے صدر حسنی مبارک کا تختہ اُلٹنے والے انقلابیوں کا ساتھ دیا اور لبیا میں معمر قذافی کو اقتدار ہٹانے کے لئےوہاں فضائی حملے کرنے کا حکم دیا۔
لیکن اب انہیں ایک طرف جمہوریت کے فروغ کی حمائت کرنے اور دوسری طرف خطےے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کےدرمیان توازن پیدا کرنے کے لئے جد و جہد کرنی پڑ رہی ہے ، کیونکہ بعض آمروں کی جگہ مقبول اسلام پسند پارٹیوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔جن میں سے بعض کا امریکہ کی جانب رویہ غیر دوستانہ ہے۔اور ایسے خطے میں ، جو جمہوریت سے عاری اور اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔انتہا پسندی اور امریکہ دشمنی کے پس مظر میں لبیا کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جار رہا تھا۔ لیکن یہ نمونہ اب مشکوک نظر آنے لگا ہے ، کیونکہ شام میں عوامی تحریک کو کچلنے کی جو خونی کاروائی جاری ہے۔اس کو روکنے میں امریکہ اب تک بے بس ثابت ہوا ہے ،اخبار کہتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی وڈیو کی مزیدتشہیر سے احتجاجی مظاہروں میں اضا فہ ہوگا او رمستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ ہنگاموں میں الجھا رہے گا،،
کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے ۔ کہ جیسے جیسے صدارتی انتخابات کا دن قریب آتا جا رہا ہے، ایسے ووٹروں کی تعداد سُکڑتی جارہی ہے جنہوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ انہیں کسے ووٹ دینا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ رائے عامہ کے کلیدی جائیزوں میں مسٹر رامنی کے مقابلے میں آگے ہیں لیکن اخبار کے خیال میں مجموعی طور پر ابھی کوئی حتمی بات بتانا مشکل ہے۔
این بی سی وال سٹریٹ جرنل کے تازہ ترین استصواب کے مطابق مسٹر اوبامہ اوہیو کی ریاست میں مسٹر رامنی کے مقابلے میں سات پوایئنٹ سے آگے ہیں۔ اور فلوریڈا ور ورجینیا کی ریاستوں مین پانچ پواینٹ سے آگے ہیں
اخبار فلاڈلفیا انکوائیرر امریکہ کے ڈاک کے محکمے کی سنگین مالی مشکلات پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ یہ محکمہ روزانہ اڑھائی کروڑ ڈلر کا نقصان اُٹھا رہا ہے ، اور وُہ ارکان کانگریس کی مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈاک کے نظام کو درپیش بُحران وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اور اس موسم گرما میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ، کہ وہ اپنے ملازمیں کی صحت کی نگہداشت پرآنے والی لاگت کی ادائیگی نہیں کر سکا ، اور جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے ، جب اسے اپنے لاکھوں ملازمین کو پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی رقم ادا کر نا ہو گی
ادھر ای میل اور نامہ و پیام کے دوسرے ذرایع کی مسابقت کی وجہ سے محکمے کو فسٹ کلاس میل استعمال کرنے والے بے شمار گاہکوں کا ہاتھ سے نکل جانے سے آمدنی میں جو بھاری خسارہ ہوا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے ارکان سینیٹ نے اپریل کے مہینے میں اصلاحات کے ایک پیکیج کی منظوری دی تھی۔ جس کی بدودلت یہ ممکن ہو جاتا ،کہ کم از کم دو سال تک خطوں کی تقسیم اگلے روزہو اور ہفتے کے روز بھی ڈاک کی تقسیم برقرار رہے۔ لیکن اخبار نے افسوس سے کہا ہے ۔ کہ ایوان نمائیندگاں میں، جس پر ری پبلکنز کا قبضہ
ہے ابھی تک اس میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ ڈاک کے نظام کو بالکل ناکام ہونے سے بچانے کے یہ اصلاحات نافذ کرنے میں مزید تاخیر نا قابل جواز ہوگی۔