امریکہ کی سر زمین کا اسّی فی صد حصّہ خشک سالی کا شکار ہے۔ ۔گرمی کی شدّت نے مکئی کی فصل کو جلا دیا ہے اورجنگلوں کی آگ نے کالو راڈو میں 29 مربع میل علاقے کو تباہ کر دیا ہے
روزنامہ ’ شکاگو سن ٹائمز‘ کو شکایت ہے کہ صدر براک اوباما اور اُن کے متوقّع انتخابی حریف مِٹ رامنی اس خشک سالی زدہ ملک میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اُنھیں عالمی حرارت سے آنے والی تباہی کے شواہد تو نظر آتے ہیں لیکن وہ شاذ ہی اس کا ذکر کرتے ہیں۔
گرمی کی شدّت نے مکئی کی فصل کو جلا دیا ہے ۔جنگل کی آگ نے جسے شدّت کی گرمی اور تیز ہواوؤں نے بھڑکایا ، کالا راڈو میں 29 مربع میل علاقے کو تباہ کر دیا ہے ، امریکہ کی سر زمین کا اسّی فی صد حصّہ خشک سالی کا شکار ہے ، اور سو درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ کی گرمی میں جُھلس رہا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکسس نے اس ہفتے رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 70 فی صد امریکیوں کو اب یقین آ گیا ہے کہ امریکہ موسمی تبدیلی کےایک دور سے گُذر رہا ہے۔یعنی ڈیموکریٹوں میں سے 87 فیصد اور ری پبلکنوں میں سے 53 فی صد۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اور مسٹر رامنی سائنسی برادری کے اس نظرئے سے متّفق نظر آ رہے ہیں کہ عالمی حرارت نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ اس کے لئے خود حضرت انسان ذمّہ دار ہے۔ البتہ، دونوں اس کا ذکر نہیں کرناچاہتے۔ اخبار کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسٹر اوباما کارخانوں سےکاربن کے دھوئیں پر پابندی کی وکالت کر کے کاروباری طبقے کی دُشمنی نہیں مول لینا چاہتے جب کہ رامنی اس خیال کے حامی معلوم ہوتے ہیں کہ امریکہ کو اُس وقت تک گرین ہاؤس گیسز پرپابندی نہیں لگانی چاہئیے، جب تک ہندوستان اور چین جیسے کاربن کا دُھواں اُڑانے والے ملک بھی یہ قدم نہیں اُٹھاتے۔
’بالٹی مور سن‘ میں پولیٹکل سائینس کے پروفیسر ٹامس شیلر کا ایک فکر انگیز اور خیال افروز مضمون چھپا ہے جس میں اُنہوں نے امریکہ کو دنیا کے واحد سُیوپرپاور کے کردار سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا ہے ۔ وُہ کہتے ہیں کہ امریکی تا ریخ میں پہلی مرتبہ ایسے شواہد نظر آرہے ہیں کہ اس ملک کے بہتریں دن شائد قصّہٴ پارینہ ہو چُکے ہیں جس کی وجُوہات سراسر خارجی ہیں اور جن پر امریکہ کا کم و بیش کوئی بھی اختیار نہیں ہے اور جن میں ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی مسابقت شامل ہے۔ مثال کے طور پر محض چھ ملکوں، یعنی برازیل، چین ، ہندوستان ، انڈونیشیا ، رُوس، اور جنوبی کوریاکے بارے میں یہ پیش گوئی ہے کہ اب سے سنہ2025 تک عالمی سطح پر ہونے والی اقتصادی نمو کا نصف انہی چھ ملکوں میں ہوگا ۔
پروفیسر شیلر کا خیال ہے کہ باوجُودیکہ امریکہ اس وقت دنیا کے واحد سُوپر پاور کے درجے سے اپنے آپ کو ہٹانے کے عمل سے گُذر رہا ہے۔ اس عمل کی رفتار دھیمی ہوگی۔ وُہ یُوں کہ اگرچہ امریکی کی کُل آبادی دُنیا کے مجموعی آبادی کا محض پانچ فی صد ہے یہ اب بھی دُنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور دُنیا کی مجمُوعی پیداوار میں امریکہ کا حصّہ ایک چوتھائی ہے۔ اُس کی فوج اب بھی دُنیا کی سب سے بڑی فوج ہے اور دنیا بھر میں دفاع پر جتنا خرچ ہوتا ہے اس کا تقریباً نصف امریکہ میں خرچ ہوتا ہے۔ پروفیسر شیلر کہتے ہیں کہ امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دفاعی اخراجات میں کمی کی حامی ہے اور اُن کی بھاری اکثر یت چاہتی ہے کہ غیر ملکی امداد میں کمی کی جائے ، پبلک چاہتی ہے کہ ملک کا یہ پیسہ ملک کے اندر ہی خرچ ہونا چاہئیے ۔
مضمون نگار نے یاد دلایا ہے کہ جب جارج واشنگٹن نے اپنی مرضی سے جان ایڈمز کو صدارت سونپی تھی تو اس سے نہ تو اُن کی اپنی کمزوری ظاہر ہوتی تھی اور نا ہی امریکی آئینی نظام کی کمزوری ۔ بلکہ، اس سے ایک پُر اعتماد نظام حکومت کی طاقت کا مظاہرہ ہوا تھا جس کی بنیاد اس نادر تخیّل پر ہے کہ اصل طاقت وُہ ہے جو ودیعت کی جاتی ہے وُہ نہیں جو ذخیرہ کی جاتی ہے۔
اور آخر میں ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے کالم نگار نیل پڈُو کون کا یہ نظریہ کہ پاکستان پر امریکہ کے انحصار کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ایران ہے۔ اُن کاخیال ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا انحصارعلاقائی عدم استحکام کی کلیدی وجہ ہےجس کا واحد حل یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو کا سامان رسد پہنچانے کا کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا جائے اور یہ متبادل ایران سے جانے والا چابہار کی سڑک ہے، بشرطیکہ واشنگٹن اس کے فوائد پر غور کرے۔
گرمی کی شدّت نے مکئی کی فصل کو جلا دیا ہے ۔جنگل کی آگ نے جسے شدّت کی گرمی اور تیز ہواوؤں نے بھڑکایا ، کالا راڈو میں 29 مربع میل علاقے کو تباہ کر دیا ہے ، امریکہ کی سر زمین کا اسّی فی صد حصّہ خشک سالی کا شکار ہے ، اور سو درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ کی گرمی میں جُھلس رہا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکسس نے اس ہفتے رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 70 فی صد امریکیوں کو اب یقین آ گیا ہے کہ امریکہ موسمی تبدیلی کےایک دور سے گُذر رہا ہے۔یعنی ڈیموکریٹوں میں سے 87 فیصد اور ری پبلکنوں میں سے 53 فی صد۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اور مسٹر رامنی سائنسی برادری کے اس نظرئے سے متّفق نظر آ رہے ہیں کہ عالمی حرارت نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ اس کے لئے خود حضرت انسان ذمّہ دار ہے۔ البتہ، دونوں اس کا ذکر نہیں کرناچاہتے۔ اخبار کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسٹر اوباما کارخانوں سےکاربن کے دھوئیں پر پابندی کی وکالت کر کے کاروباری طبقے کی دُشمنی نہیں مول لینا چاہتے جب کہ رامنی اس خیال کے حامی معلوم ہوتے ہیں کہ امریکہ کو اُس وقت تک گرین ہاؤس گیسز پرپابندی نہیں لگانی چاہئیے، جب تک ہندوستان اور چین جیسے کاربن کا دُھواں اُڑانے والے ملک بھی یہ قدم نہیں اُٹھاتے۔
’بالٹی مور سن‘ میں پولیٹکل سائینس کے پروفیسر ٹامس شیلر کا ایک فکر انگیز اور خیال افروز مضمون چھپا ہے جس میں اُنہوں نے امریکہ کو دنیا کے واحد سُیوپرپاور کے کردار سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا ہے ۔ وُہ کہتے ہیں کہ امریکی تا ریخ میں پہلی مرتبہ ایسے شواہد نظر آرہے ہیں کہ اس ملک کے بہتریں دن شائد قصّہٴ پارینہ ہو چُکے ہیں جس کی وجُوہات سراسر خارجی ہیں اور جن پر امریکہ کا کم و بیش کوئی بھی اختیار نہیں ہے اور جن میں ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی مسابقت شامل ہے۔ مثال کے طور پر محض چھ ملکوں، یعنی برازیل، چین ، ہندوستان ، انڈونیشیا ، رُوس، اور جنوبی کوریاکے بارے میں یہ پیش گوئی ہے کہ اب سے سنہ2025 تک عالمی سطح پر ہونے والی اقتصادی نمو کا نصف انہی چھ ملکوں میں ہوگا ۔
پروفیسر شیلر کا خیال ہے کہ باوجُودیکہ امریکہ اس وقت دنیا کے واحد سُوپر پاور کے درجے سے اپنے آپ کو ہٹانے کے عمل سے گُذر رہا ہے۔ اس عمل کی رفتار دھیمی ہوگی۔ وُہ یُوں کہ اگرچہ امریکی کی کُل آبادی دُنیا کے مجموعی آبادی کا محض پانچ فی صد ہے یہ اب بھی دُنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور دُنیا کی مجمُوعی پیداوار میں امریکہ کا حصّہ ایک چوتھائی ہے۔ اُس کی فوج اب بھی دُنیا کی سب سے بڑی فوج ہے اور دنیا بھر میں دفاع پر جتنا خرچ ہوتا ہے اس کا تقریباً نصف امریکہ میں خرچ ہوتا ہے۔ پروفیسر شیلر کہتے ہیں کہ امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دفاعی اخراجات میں کمی کی حامی ہے اور اُن کی بھاری اکثر یت چاہتی ہے کہ غیر ملکی امداد میں کمی کی جائے ، پبلک چاہتی ہے کہ ملک کا یہ پیسہ ملک کے اندر ہی خرچ ہونا چاہئیے ۔
مضمون نگار نے یاد دلایا ہے کہ جب جارج واشنگٹن نے اپنی مرضی سے جان ایڈمز کو صدارت سونپی تھی تو اس سے نہ تو اُن کی اپنی کمزوری ظاہر ہوتی تھی اور نا ہی امریکی آئینی نظام کی کمزوری ۔ بلکہ، اس سے ایک پُر اعتماد نظام حکومت کی طاقت کا مظاہرہ ہوا تھا جس کی بنیاد اس نادر تخیّل پر ہے کہ اصل طاقت وُہ ہے جو ودیعت کی جاتی ہے وُہ نہیں جو ذخیرہ کی جاتی ہے۔
اور آخر میں ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے کالم نگار نیل پڈُو کون کا یہ نظریہ کہ پاکستان پر امریکہ کے انحصار کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ایران ہے۔ اُن کاخیال ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا انحصارعلاقائی عدم استحکام کی کلیدی وجہ ہےجس کا واحد حل یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو کا سامان رسد پہنچانے کا کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا جائے اور یہ متبادل ایران سے جانے والا چابہار کی سڑک ہے، بشرطیکہ واشنگٹن اس کے فوائد پر غور کرے۔