صدر اوباما نے کہا ہےکہ امریکی عوام نےدنیا بھر میں لوگوں کےنظریات کے اظہار کے حق کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور جانیں قُربان کی ہیں اور اُن میں وہ نظریات بھی ہیں جِن سے ہمارا اختلاف ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر اوباما نے اپنی تقریر میں آزادئ اظہار کے حق کا جو دفاع کیا ہے ’ واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے اس کی بھر پور تعریف کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس ماہ جب دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف مظاہرے ہوئے تو اوباما انتظامیہ کا ردّعمل اُس اسلام دُشمن وٕڈیو کی مذمّت کی صورت میں سامنے آیا جس پر عوامی غم و غصّے کا اظہار کیا گیا تھا اور جو انتہا پسندوں کے لئے بھی ایک بہانہ بن گیا تھا اور صدر اوباما اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس وڈیو سے حکومت کی لاتعلّقی کا اظہار کر کے مذہبی رواداری کی امریکی روائت کی اہمیت کو اُجاگر کرکے صحیح قدم اُٹھایا تھا۔
لیکن، اخبار کے نزدیک تشویش کی بات یہ تھی کہ وہائٹ ہاؤس نے گُوگل سے یہ کہا کہ وُہ یُو ٹُیوب کی ویب سائٹ سے اس مذموم وٕڈیو کو ہٹا دے۔البتہ، جنرل اسمبلی میں آزادئ اظہار کے حق کا مسٹر اوباما نے جو شاندار دفاع کیا ہے، اُسے اخبار نے حوصلہ ا فزا قرار دیا ہے۔ آزادئ اظہار کے اس حق میں نہائت مقدّس اعتقادوں کی اہانت شامل ہے۔
صدر نے کہا کہ امریکی عوام نے دنیا بھر میں لوگوں کے نظریات کے اظہار کے حق کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور جانیں قُربان کی ہیں اور ان میں وہ نظریات بھی ہیں جن سے ہمارا اختلاف ہے ۔
اُنہوں نے کہا کہ آزادی کی عدم موجودگی کی ایسی فضا میں لوگوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے سے روکا جا سکتا ہےاور آزادئ اظہار پر قدغن لگانا ، تنقید کرنے والوں کا مُنہ بند کرنے یا اقلیّتوں پر ظُلم ڈھانے کا حربہ بن سکتا ہے، چنانچہ نفرت پھیلانے والی تقریر کے خلاف سب سے طاقتور حربہ آزادی کو دبانا نہیں ، بلکہ مزید آزادئ اظہار ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے لئے مسلمانوں کی اکثریت پر جو ان مظاہروں میں شرکت نہیں کرتی ، لیکن جو اس بحث سے باخبر ہے ،یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ امریکہ مذہبی اہانت کی سر پرستی نہیں کرتا ۔ امریکی عوام اس حقیقت سے باخبر ہیں ، لیکن وسط مشرق میں اس کا ادراک اتنا عام نہیں۔ اسی طرح اس پیغام کی تشہیر ضروری ہے کہ مذہبی جذبات کی مناسبت سے امریکہ میں آزادئ اظہار کی روائت پر قدغن نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی تشّدد برداشت کیا جائے گا اور جیسا کہ صدر نے اپنی تقریر میں کہا ، امریکہ کے عوام اور اس کے دوستوں کو نقصان پہنچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
صدر اوباما کی اقوام متحدہ کی تقریر میں آزادئ اظہار کی اہمیت کواُجاگر کرنے پر ’نیو یارک ٹائمز‘ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے ۔ نومبر انتخابات سے پہلے اس کو صدر کی آخری بڑی تقریر قرار دیتے ہوئے، اخبار کہتا ہے کہ اُنہوں نے آزادئ اظہار پر امریکہ کے غیر متّزلزل اعتقاد کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ عرب اور شمالی افریقہ کی اُبھرتی ہوئی جمہوریتوں کو چیلنج کیا کہ وہ تشددُّ کے خلاف ڈٹ کر اس حق کا دفاع کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کے لئے یہ تقریر ایک طرح سے توازن بحال کرنے کا عمل تھا جن کو پچھلے چند ہفتوں کے دوران پُورے مشرق وسطیٰ میں امریکہ دُشمن مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے ری پبلکن مدّمقابل مٕٹ رامنی نے انہیں خارجہ پالیسی میں کمزوری برتنے کا طعنہ دیا ہے ، اور انہوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ ان مظاہروں پر صدر کا ردّ عمل معذرت خواہانہ تھا ۔ چنانچہ، جنرل اسمبلی میں عالمی لیڈروں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا ، کہ اہانت رسول وڈیو پر تشدّد کی جو وارداتیں ہوئی ہیں ۔ اُن کی وجہ سےامریکہ جمٕہوریت کے لئے عربوں کی حمائت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
’ وال سٹریٹ جرنل ‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں خارجہ پالیسی کے اُن امور پر کُھل کر بات کی جو رواں صدارتی انتخابی مہٕم کے دوران مرکزی اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں۔ اپنے ری پبلکن مدّ مقابل مٹ رامنی کے دباؤ کے پس منظر میں صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ میں سیاسی بغاوتوں سے نمٹنے کی اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا، کہ ان وقتی چیلنجوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ دنیائے عرب میں جمہوریت کے فروغ کے لئے حمائت جاری رکھیں گے۔
اس کے لئے مسٹر اوباما نے مصر ، لبیا ، یمن اور تیونس کی مثال دی ۔ باوجودیکہ، وہاں اخوان المسلمین جیسی اسلام پسند تنظیموں نے غلبہ حاصل کر لیا ہے جن کا مغرب کی طرف روائتی طور پر معاندانہ رویّہ رہا ہے۔
چنانچہ، ری پبلکن مدّ مقابل مٕٹ رامنی نے دنیائے عرب کی تحریکوں کی طرف مسٹر اوبامہ کے رویّے، شام میں جاری تشدّد اور تہران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل اور ایران کے درمیان محاذ آرائی پر اپنی تنقید تیز کر دی ہے۔ اور جیسا کہ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے ، مسٹر اوباما نے اس تنقید کو ردّ کرتے ہوئے جنرل اسمبلی میں اعلان کیا کہ اگر سفارتی دباؤ کی بدولت تہران کا جوہری پروگرام بند نہ ہوا ، تو اُس صورت میں امریکہ طاقت کا استعمال کرے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ اس ماہ جب دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف مظاہرے ہوئے تو اوباما انتظامیہ کا ردّعمل اُس اسلام دُشمن وٕڈیو کی مذمّت کی صورت میں سامنے آیا جس پر عوامی غم و غصّے کا اظہار کیا گیا تھا اور جو انتہا پسندوں کے لئے بھی ایک بہانہ بن گیا تھا اور صدر اوباما اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس وڈیو سے حکومت کی لاتعلّقی کا اظہار کر کے مذہبی رواداری کی امریکی روائت کی اہمیت کو اُجاگر کرکے صحیح قدم اُٹھایا تھا۔
لیکن، اخبار کے نزدیک تشویش کی بات یہ تھی کہ وہائٹ ہاؤس نے گُوگل سے یہ کہا کہ وُہ یُو ٹُیوب کی ویب سائٹ سے اس مذموم وٕڈیو کو ہٹا دے۔البتہ، جنرل اسمبلی میں آزادئ اظہار کے حق کا مسٹر اوباما نے جو شاندار دفاع کیا ہے، اُسے اخبار نے حوصلہ ا فزا قرار دیا ہے۔ آزادئ اظہار کے اس حق میں نہائت مقدّس اعتقادوں کی اہانت شامل ہے۔
صدر نے کہا کہ امریکی عوام نے دنیا بھر میں لوگوں کے نظریات کے اظہار کے حق کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور جانیں قُربان کی ہیں اور ان میں وہ نظریات بھی ہیں جن سے ہمارا اختلاف ہے ۔
اُنہوں نے کہا کہ آزادی کی عدم موجودگی کی ایسی فضا میں لوگوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے سے روکا جا سکتا ہےاور آزادئ اظہار پر قدغن لگانا ، تنقید کرنے والوں کا مُنہ بند کرنے یا اقلیّتوں پر ظُلم ڈھانے کا حربہ بن سکتا ہے، چنانچہ نفرت پھیلانے والی تقریر کے خلاف سب سے طاقتور حربہ آزادی کو دبانا نہیں ، بلکہ مزید آزادئ اظہار ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے لئے مسلمانوں کی اکثریت پر جو ان مظاہروں میں شرکت نہیں کرتی ، لیکن جو اس بحث سے باخبر ہے ،یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ امریکہ مذہبی اہانت کی سر پرستی نہیں کرتا ۔ امریکی عوام اس حقیقت سے باخبر ہیں ، لیکن وسط مشرق میں اس کا ادراک اتنا عام نہیں۔ اسی طرح اس پیغام کی تشہیر ضروری ہے کہ مذہبی جذبات کی مناسبت سے امریکہ میں آزادئ اظہار کی روائت پر قدغن نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی تشّدد برداشت کیا جائے گا اور جیسا کہ صدر نے اپنی تقریر میں کہا ، امریکہ کے عوام اور اس کے دوستوں کو نقصان پہنچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
صدر اوباما کی اقوام متحدہ کی تقریر میں آزادئ اظہار کی اہمیت کواُجاگر کرنے پر ’نیو یارک ٹائمز‘ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے ۔ نومبر انتخابات سے پہلے اس کو صدر کی آخری بڑی تقریر قرار دیتے ہوئے، اخبار کہتا ہے کہ اُنہوں نے آزادئ اظہار پر امریکہ کے غیر متّزلزل اعتقاد کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ عرب اور شمالی افریقہ کی اُبھرتی ہوئی جمہوریتوں کو چیلنج کیا کہ وہ تشددُّ کے خلاف ڈٹ کر اس حق کا دفاع کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کے لئے یہ تقریر ایک طرح سے توازن بحال کرنے کا عمل تھا جن کو پچھلے چند ہفتوں کے دوران پُورے مشرق وسطیٰ میں امریکہ دُشمن مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے ری پبلکن مدّمقابل مٕٹ رامنی نے انہیں خارجہ پالیسی میں کمزوری برتنے کا طعنہ دیا ہے ، اور انہوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ ان مظاہروں پر صدر کا ردّ عمل معذرت خواہانہ تھا ۔ چنانچہ، جنرل اسمبلی میں عالمی لیڈروں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا ، کہ اہانت رسول وڈیو پر تشدّد کی جو وارداتیں ہوئی ہیں ۔ اُن کی وجہ سےامریکہ جمٕہوریت کے لئے عربوں کی حمائت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
’ وال سٹریٹ جرنل ‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں خارجہ پالیسی کے اُن امور پر کُھل کر بات کی جو رواں صدارتی انتخابی مہٕم کے دوران مرکزی اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں۔ اپنے ری پبلکن مدّ مقابل مٹ رامنی کے دباؤ کے پس منظر میں صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ میں سیاسی بغاوتوں سے نمٹنے کی اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا، کہ ان وقتی چیلنجوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ دنیائے عرب میں جمہوریت کے فروغ کے لئے حمائت جاری رکھیں گے۔
اس کے لئے مسٹر اوباما نے مصر ، لبیا ، یمن اور تیونس کی مثال دی ۔ باوجودیکہ، وہاں اخوان المسلمین جیسی اسلام پسند تنظیموں نے غلبہ حاصل کر لیا ہے جن کا مغرب کی طرف روائتی طور پر معاندانہ رویّہ رہا ہے۔
چنانچہ، ری پبلکن مدّ مقابل مٕٹ رامنی نے دنیائے عرب کی تحریکوں کی طرف مسٹر اوبامہ کے رویّے، شام میں جاری تشدّد اور تہران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل اور ایران کے درمیان محاذ آرائی پر اپنی تنقید تیز کر دی ہے۔ اور جیسا کہ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے ، مسٹر اوباما نے اس تنقید کو ردّ کرتے ہوئے جنرل اسمبلی میں اعلان کیا کہ اگر سفارتی دباؤ کی بدولت تہران کا جوہری پروگرام بند نہ ہوا ، تو اُس صورت میں امریکہ طاقت کا استعمال کرے گا۔