اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق امریکہ میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق حکام سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور پچھلے سات برسوں سے جاری ڈرون حملوں کےباعث القاعدہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
اِس کے علاوہ سی آئی اے میں بھی عمومی طور پر یہی خیال کیاجاتا ہے کہ چند مزید حملےپاکستان میں القاعدہ تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ تاہم، امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں اِس تنظیم کےختم ہونے سے دہشت گردی کا خطرہ ختم نہیں ہوگا۔
اور اب یمن میں قائم اِس تنظیم کے دھڑے کو زیادہ بڑا چیلنج سمجھا جارہا ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک مضمون میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا گیا ہے جو کچھ خواتین کی سمندر کی سیر کے بارے میں ہے۔
یہ خبر حیرت انگیز اِس لیے ہے کیونکہ سیر کا اہتمام کچھ اسرائیلی خواتین نے فلسطینی خواتین کے لیے کیا اور اُن کو خود ساحلِ سمندر پر لے کر گئیں۔ حالانکہ، ایسا کرنے سے اُن کو مجرم قرار دے کر جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔
اردن کے باشندوں کو ساحلِ سمندر تک جانے کے لیے اسرائیل سے گزرنا پڑتا ہے جس کی اسرائیل کے قانون کے تحت اجازت نہیں ہے۔
اِس قانون کی دانستہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے لیے اسرائیلی خواتین کے ایک گروپ نے اس سیر کا اہتمام کیا اور فلسطینی عورتوں کو چھپا کر اپنےساتھ لے گئیں تاکہ وہ ایک دِن کے لیے ساحلِ سمندر سے لطف اندوز ہو سکیں۔
اِن اسرائیلی خواتین نے اپنا نام رکھا ہے ’ہم نہیں مانیں گے‘۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ اِن خواتین نے اسرائیلی اخبار میں دیے گئے ایک اشتہار میں لکھا کہ ہم اسرائیل میں داخلے کے قانون کو اِسی لیے نہیں مانتے کیونکہ یہ اسرائیلیوں اور ہر یہودی کو تو آزادی سے گھومنے کی اجازت دیتا ہے لیکن فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں میں بھی آزادی سے گھومنے کی اجازت نہیں ہے۔
اخبار کے مضمون کے مطابق، اِس سمندر کے سیر کا اہتمام کرنے پر 28اسرائیلی خواتین نے پولیس سے پوچھ گچھ کی ہےاور اُن کے خلاف مقدمات قائم کردیے گئے ہیں۔
’لاس اینجلس ٹائمز‘ کے ایک مضمون میں ناروے میں ہونے والی حالیہ ہلاکتوں کو موضوع بناتے ہوئے مضمون نگار نے امریکہ کے شہر اوکلاہوما سٹی میں 1995ء میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر کیا ہے جس میں 168افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملہ ایک نسل پرست امریکی ٹمتھی مکوے نے کیا تھا۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اِس حملے سے کچھ عرصہ پہلے ایک ناول شائع ہوا تھا جو امریکہ میں ایک قوم پرست گروہ کے رہنما نے لکھا تھا۔
اِس ناول کی کہانی میں نسل پرست گوریلہ جنگجوامریکی حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر ایک نسلی جنگ شروع ہوتی ہے جس میں تمام یہودی اور سیاہ فام افراد کو مار دیا جاتا ہے۔ اِس ناول میں بم بنانے کا پورا طریقہ بھی بتایا گیا تھا۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ اوکلاہوما سٹی میں بم حملے کے سلسلے میں جب ٹمتھی مکوے کو گرفتار کیا گیا تو اُس کی گاڑی سے یہ ناول ملا اور پتا چلا کہ وہ یہ ناول اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتا تھا۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ ناروے حملے کا ملزم آندرے بریوک کے بارے میں بھی پتا چلا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف چھپنے والے نفرت انگیز مواد بہت جوش اور جذبے سے پڑھتا تھا۔
’لاس اینجلس ٹائمز ‘میں چھپنے والے مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ مغربی دنیا میں جہاں اظہارِ رائے کی آزادی ہے وہاں ایسے مواد کو سنسر تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن ایسے مواد کو نظرانداز کرنا بھی غلط ہوگا۔