پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سےتوہینِ عدالت کا مجرم قرار دیے جانے کی خبر کی امریکی ذرائع ابلاغ میں بڑی تشہیر ہوئی ہے اور’نیویارک ٹائمز‘ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اُنھیں عدالت نے جوعلامتی سزا دی ہے اُس سے اُن پر دباؤ تو ختم ہوگیا ہے، لیکن وہ اب بھی اپنا عہدہ کھو سکتے ہیں، کیونکہ مجرم قرار دیے جانے کی وجہ سے اُن کی گردن پر آئین کی اُس شق کی تلوار لٹکتی رہے گی جس کے تحت کوئی مجرم کسی پبلک عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ پاکستان میں یہ عدالتی ہنگامہ اوباما انتظامیہ کے لیے ایک مشکل گھڑی میں آیا ہے، جو اِس وقت پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے تاکہ پاکستان افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے رسد کے راستے دوبارہ کھول دے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سےپاکستان اس قابل نہیں ہے کہ وہ پڑوسی افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کروانے میں کوئی مفید مطلب کردار ادا کرسکے۔
’لاس انجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اگر مسٹر گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے تو اس سے صدر زرداری کے اندرونی حلقے میں بڑا خلا پیدا ہوگا۔
اُنھوں نے مسٹر زرداری سے انتہا درجے کی وفاداری برتی ہے اور سنہ 2001میں جب سابق حکمراں پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل کا ساتھ دیں تو مسٹر گیلانی نے صاف انکار کردیا اور اُنھوں نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ راولپنڈی کی ایک جیل میں گزارا۔
پاکستان نے بدھ کے روز جوہری ہتھیار لے جانے کے صلاحیت والے جس درمیانی مار کرنے والے بیلسٹک میزائیل کا کامیاب تجربہ کیا، اُس پر ’نیو یارک ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ یہ تجربہ ہندوستان کے اگنی پانچ بیلسٹک میزائیل کی کامیاب آزمائش کے چھ روز بعد کیا گیا۔
لیکن، اخبار نے پاکستانی فوجی اور دفاعی تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُن کا یہ تجربہ ہندوستانی تجربے کے جواب میں نہیں تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ میزائیل ایسےسابق میزائیلوں سے بہتر تھا جو 620میل کی دوری تک مار کر سکتا ہے اور پچھلے سال امریکی انٹیلی جنس کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اپنے جوہری اسلحہ خانے میں توسیع کی ہے۔ اُس نے اِس میدان میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اُس نے دنیا کی پانچویں بڑی جوہری طاقت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔
اخبار’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتا ہے کہ متنازع سیاچن گلیشئر میں برفانی تودہ گرنے کے خوفناک حادثے کے بعد ہندوستان اور پاکستان مذاکرات پر مائل نظر آرہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دنیا کے اِس بلند ترین محاذِ جنگ میں اِن دونوں جوہری طاقتوں کو اقتصادی اور انسانی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اِس لیے، اولین ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ دونوں وہاں سے اپنی فوجیں ہٹالیں۔ جوہری حریفوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے وہاں سے فوجیں ہٹانے کی تجویز رکھی ہے اور ہندوستان کو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیئے۔
’لاس انجلیس ٹائمز‘ نے ایک اداریے میں اس کی وضاحت کی ہے کہ ہندوستان کی طرف سے امریکہ پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ افغانستان کی امداد کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے لیے جنگ لڑنے کی حد تک نہیں۔
عرصے سے یہ بات واضح ہے کہ 2014ء میں افغان فوجوں کی طرف سے سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بھی امریکہ ایک کردار ادا کرتا رہے گا۔
واشنگٹن اور کابل کے مابین سٹریٹجک شراکت داری کے ایک معاہدے پراتفاق رائے ہوگیا ہے جس کے تحت امریکہ تقریباً مزید دس سال تک افغانستان کو فوجی، اقتصادی اور دوسری امداد دیتا رہے گا۔
اخبار’ڈینورپوسٹ‘ ایک اداریے میں کہتا ہےکہ امریکہ اب یورپ میں اپنی فوجیں متعین رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ ملک پر بجٹ کے جس بھاری خسارے کا بوجھ ہے اُس سے نجات پانے کے لیے شائد بالآخر فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ سرد جنگ کے زمانے سے امریکہ کے جو 79ہزار فوجیں یورپ میں موجود ہیں، اُنھیں وہاں سے ہٹا کر وطن واپس بلانا چاہیئے، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ سویت یونین کے زوال کو اب دو عشرے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: