اخبار ’لاس اینجلیس ٹائمز‘نے The Afghan Divideکے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے۔مصنفہ طویل عرصے تک افغانستان میں مقیم رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ افغانستان میں کامیابی کی پیمائش کا سوال بے حد اہم ہے۔ مگر، اِس کے جواب پر ہر ایک کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
مصنفہ افغانستان کی صورتِ حال کے بارے میں امریکہ کے درجن بھر خفیہ اداروں کی اُس ’کلاسی فائیڈ رپورٹ‘ کا حوالہ دیتی ہیں جس کے چیدہ چیدہ نکات ’دِی ٹائمز‘ نے جاری کیے تھے۔ اِن رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں اضافے کے سبب جو نازک سی کامیابی حاصل ہوئی تھی، اُسے افغان حکومت کی بدعنوانی، بدانتظامی اور پاکستان سے طالبان جنگجوؤں کے آپریشن کے سبب برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
مصنفہ کے مطابق، افغانستان سے طے شدہ پروگرام کے مطابق امریکہ کا فوجی انخلا ایک درست فیصلہ ہے، لیکن اگر افغانستان کے اندر حکومتی سیٹ اپ سے بدعنوانی کے خاتمے اور پاکستان کے اندر سے عسکریت پسندوں کے لیے امداد جیسے دو مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا تو امریکی حکومت سے یہ سوال اٹھایا جانا چاہیئے کہ ہم مزید جانیں اور وسائل کیوں ضائع کر رہے ہیں۔
صدر اوباما کو چاہیئے کہ وہ اِس مشکل مسئلے کے متعدد پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے فیصلے کریں جو وہاں موجود خطرات کی سرکوبی کرتے ہوں۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے Unfinished Business in Iraqکے عنوان سے ایک اداریہ تحریر کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ عراق سے امریکہ کے آخری فوجی کے انخلا کے بعد اب تک ایسے بہت سے عراقی شہری عسکریت پسندوں کے ہاتھوں چُن چُن کر ہلاک کر دیے گئے ہیں، جنھوں نے امریکیوں کے ساتھ کام کیا۔متعدد نے امریکہ کے فوجی اڈوں پر پناہ لی لیکن اُن بیسز کے بند ہونے کے بعد وہ لوگ چھپنے پر مجبور ہوگئے۔
سال 2007ء میں کانگریس نے امریکی فوج کی مدد کرنے والے عراقیوں کے لیے خصوصی ویزا پروگرام کی منظوری دی تھی، جس کے تحت سالانہ 5000عراقیوں کو ویزے جاری کیے جانا تھے۔ لیکن، اخبار کے مطابق، اِمیگریشن نظام میں سست روی کے باعث، ایسے ہزاروں عراقیوں کی ویزا درخواستیں التویٰ میں پڑ گئی ہیں۔ اوپر سے، گذشتہ سال کنٹکی میں دو عراقیوں پر القاعدہ کی مدد کرنے کے الزامات نے عراقیوں کے لیے ویزوں کے اجرا میں نگرانی کے عمل کو مزید سخت کردیا ہے۔
اخبار کے مطابق، ایک غیرسرکاری تنظیم بتا رہی ہے کہ 62،000عراقی اپنے خاندان سمیت امریکہ کے ویزوں کی درخواست دے چکے ہیں۔ اُن میں سے 29،000ایسے ہیں جنھوں نے امریکیوں کی معاونت کی تھی۔
اخبار باور کراتا ہے کہ ایسے میں جب امریکی انخلا کے بعد عراق میں تشدد کے واقعات میں آئے روز شدت آرہی ہے، امریکہ کے لیے کام کرنے والے عراقیوں کی زندگیاں مزید خطرات سے دوچار ہو رہی ہیں۔ لہٰذا، حالات واشنگٹن کی توجہ کے متقاضی ہیں۔
Why Gingrich would lose in debate with Obamaیہ عنوان ہے ’واشنگٹن پوسٹ ‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا۔مضمون نگار نے نیوٹ گنگرچ کی ریپبلیکن پارٹی سے صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیابی کی صورت میں صدارتی مباحثے میں صدر براک اوباما اور نیوٹ گنگرچ کے فنِ خطابت اور مختلف امور پر اُن کی سوچ کے حوالے سے حاشیہ آرائی کی ہے۔
مضمون نگار کے مطابق نیوٹ گنگرچ پرائمریز کے دوران ری پبلیکن ووٹروں کو متاثر کرتے نظر آئے ہیں۔ ساؤتھ کیرولینا میں اُن کے بڑے فرق سے فتح نے اُن کے لیے امکانات کو روشن کیا ہے۔ اور وہ خود بھی اِس قدر پُر اعتماد ہیں کہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صدارتی مباحثے میں وہ صدر براک اوباما کی ایک نہیں چلنے دیں گے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: