امریکی اخبارات سے: ڈاکٹر آفریدی کا مسئلہ اور ترکی کے صدر کا انٹرویو

فائل

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی اور انہیں استعمال کرنے والوں کو اپنے اس فعل کے بعض تلخ نتائج کا احساس ہونا چاہیئے تھا۔ ان کی اس حرکت کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنے بچوں کی ویکسی نیشن کرانے سے اس خوف کی بنیاد پر انکار کرسکتے ہیں کہ یہ درپردہ 'سی آئی اے' ہی کا کوئی منصوبہ ہوسکتا ہے

اخبار'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کرنے اور بعد میں اُن کی گرفتاری اور سزا کے مضمرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

مضمون نگار لکھتا ہے کہ 'سی آئی اے' کی جانب سے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو بھرتی کرنے اور پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم کی آڑ میں اسامہ بن لادن کےاہلِ خانہ کے خون کے نمونےاکٹھے کرنے کی کاروائی کو اگر خفیہ آپریشن کےنقطہ نظر سے دیکھا جائے تو منصوبہ سازوں کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے۔ لیکن مضمون نگار کے بقول اس معاملے کی اخلاقی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی۔

مضمون کے مطابق 'سی آئی اے' کی اس حرکت نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحتِ عامہ کے منصوبوں کی ساکھ پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے نتیجےمیں غیر سرکاری تنظیموں کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے جنہیں پہلے ہی دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی اور انہیں استعمال کرنے والوں کو اپنے اس فعل کے بعض تلخ نتائج کا احساس ہونا چاہیئے تھا۔ ان کی اس حرکت کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنے بچوں کی ویکسی نیشن کرانے سے اس خوف کی بنیاد پر انکار کرسکتے ہیں کہ یہ درپردہ 'سی آئی اے' ہی کا کوئی منصوبہ ہوسکتا ہے۔

اخبار کے مطابق اس وقت دنیا کے صرف تین ممالک - پاکستان، افغانستان اور نائجیریا -میں پولیو کا مرض باقی رہ گیا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ملکوں کے دور دراز علاقوں کے رہائشی پولیو ویکسین کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا مضمون نگار لکھتا ہے کہ 'سی آئی اے' کی اس کاروائی کے بعد ان تحفظات میں اضافہ ہونا بعید از قیاس نہیں۔

مضمون نگار نے بیرونِ ملک خدمات انجام دینے والے امریکہ کے 200 سے زائد غیر سرکاری امدادی اداروں کی نمائندہ تنظیم کے صدر کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے۔ اپنے بیان میں عہدیدار کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ منظرِ عام پر آنے کے بعد امریکی این جی اوز کے لیے پاکستان میں امدادی سرگرمیوں کی انجام دہی مشکل ہوگئی ہے، جب کہ امدادی کارکنوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ جاسوسی کی سرگرمیاں عمومی قوانین اور اخلاقیات کی گرفت سے آزاد ہوتی ہیں لیکن اب ان کی کچھ حدود و قیود طے ہوجانی چاہئیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ مناسب ہوگا کہ انٹیلی جنس ادارے بیرونِ ملک اپنی کاروائیوں کے لیے طبی عملے اور امدادی کارکنوں کا استعمال ترک کردیں کیوں کہ ایسی کاروائیوں کی ناکامی یا ان کے طشت از بام ہونے کی صورت میں خمیازہ معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ترقی پذیردنیا خصوصاً مسلم ممالک میں ان دنوں ترکی کو ایک مثالی ریاست کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ طویل فوجی بالادستی کے بعد نمو پانے والی جمہوریت کے تحت ترکی نے نہ صرف تیزی سے معاشی ترقی کی ہے بلکہ وہ ایک علاقائی قوت اور عالمی مسائل کا ایک اہم فریق بن کر ابھر رہا ہے۔

اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر'نے ترکی کے صدر عبداللہ گل کا ایک انٹرویو شائع کیا ہے جس میں انہوں نے کئی علاقائی اور عالمی مسائل پر ترکی کے موقف اور کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

صدر گل کا تعلق ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کی جماعت'جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی' سے ہے جس کے بارے میں اندرونِ اور بیرونِ ملک عام تاثر یہ ہے کہ یہ جماعت خاموشی کے ساتھ اپنے اسلامی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور ترکی کی سیکولر شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر ترک صدر نے اپنے انٹرویو میں مصر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی سیکولر ازم کو گلے لگائے جو ان کے بقول "تمام عقائد کے احترام" کا درس دیتا ہے۔

ترک صدر کا یہ مشورہ اس لیے بھی معنی خیز ہے کہ مصر میں ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسندوں نے بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی ہے۔ جب کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں بھی اسلام پسند امیدواروں نے مجموعی طور پر50 فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہیں۔

اپنے انٹرویو میں ترک صدر کا کہنا ہے کہ عرب اور افریقی مسلم ممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ہاں سیکولر ازم کا فرانسیسی تناظر مقبول ہے جس میں اس سے مراد لادینیت لی جاتی ہے۔ ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ خطے کے مسلم ممالک میں سیکولر ازم کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔

ترک صدر کے بقول اس کے برعکس سیکولرازم کی وہ تشریح جس کی بنیاد پر امریکہ اور برطانیہ کا نظامِ حکومت قائم ہے خاصی مناسب ہے اور محض ریاست اور مذہب کی علیحدگی کا تقاضا کرتی ہے۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' کے ساتھ اپنے انٹرویو میں ترک صدر نےکہا ہے کہ ایران کے جوہری تنازع کا حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے، جسے ان کے بقول، جتنا جلد طے کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

شام کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر عبداللہ گل نے کہا کہ شام میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اب تک 1500 افراد قتل ہوچکے ہیں۔ ان کے بقول شام میں کوفی عنان کے تجویز کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے روس کا کردار بہت اہم ہے جسے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا قریب ترین اتحادی تصور کیا جاتا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: