اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے گزشتہ روز اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھاکہ نامی گرامی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کی کاروائیوں اور بیرونِ ملک کیے جانے والے ڈرون حملوں کا حتمی فیصلہ امریکہ کے صدر براک اوباما خود کرتے ہیں۔
آج اخبار نے اسی موضوع پر ایک اداریہ شائع کیا ہے کہ جس میں صدر اوباما کے اس اختیار پہ تنقید کی گئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے زیرِاثر اوباما انتظامیہ کئی برسوں سے اس گمان میں مبتلا ہے کہ اسے کسی بھی فرد کو دشمن قرار دے کر ہلاک کرنے کا اختیار حاصل ہے چاہے وہ کوئی امریکی شہری ہی کیوں نہ ہو۔
'نیویارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ گوکہ صدر اوباما اب تک ان ہلاکت خیز کاروائیوں کے نشانوں کا تعین انتہائی سوچ بچار اوراحتیاط سےکرتے آئے ہیں لیکن آخرکو وہ ہیں تو ایک سیاست دان ہی جسے اپنے عہدہ صدارت کی مدت کے اختتام پر دوبارہ منتخب ہونے عوام کے پاس جانا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایسے کسی بھی عہدے پر متمکن فرد کو یہ اختیارِ کل نہیں سونپا جاسکتا کہ وہ امریکہ کی حدود سے باہر کسی بھی غیر ملکی یا امریکی شہری کو خطرناک قرار دے کر اسے ٹھکانے لگانے کا حکم جاری کرے۔
اخبار نے سوال کیا ہے کہ آخر دنیا کے پاس یہ جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ صدرِ امریکہ کے حکم پر جس شخص کو قتل کیا گیا وہ واقعی ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد تھا یا کوئی ایسا فرد جو حالات کے جبر کے باعث غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھا۔
اخبار کےمطابق یہ بھی تو ایک حقیقت ہےکہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد جن سیکڑوں افراد کو دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونسا گیا ان میں سے کئی بعد ازاں بے گناہ ثابت ہوئے۔
اپنے اداریے میں 'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک ایسی جنگ کا حصہ نہ بنایا جائے جس میں امریکی فوج کو دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی جانب سے لاحق خطرے کا جواب ضابطے کی کسی مناسب کاروائی کے بغیر ہی جان لیوا طاقت سے دینے کی کھلی چھٹی حاصل ہو۔ اخبار کے مطابق یہ ایک ایسا اختیار ہے جس کا بآسانی غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ اس بات کے قابلِ اعتبار شواہد موجود ہیں کہ امریکی محکمہ دفاع یمن میں ڈرون طیاروں کے ذریعے جن افراد کو مشتبہ قرار دے کر ہلاک کر رہا ہے اسے ان کے ناموں تک کا علم نہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ 'پینٹا گون' آخر ان اہداف کا تعین کس بنیاد پر کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی انتظامیہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے تمام مردوں کو جنگجو قرار دیتی ہے چاہے اس دعویٰ کے حق میں کوئی ثبوت دستیاب ہو یا نہ ہو۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ ہلاکتوں کی اس یک طرفہ لہر کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ان کاروائیوں کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے کہ جب ان اہداف کا تعین غیر سیاسی لوگ کریں، صدر اوباما اہدافی ہلاکت کی اجازت صرف اسی صورت میں دیں جب دشمن تک پہنچنے کے دیگر تمام طریقے ناکام ہوچکے ہوں، اور ایسی ہر کاروائی کا قانونی جواز عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
اخبار'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنے ایک مضمون میں ہیلری کلنٹن کی امریکی وزیرِ خارجہ کی ذمہ داری سے سبکدوشی کے بعد اس عہدے کے متوقع امیدواروں کا جائزہ لیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کانتیجہ چاہے کچھ بھی ہو، ایک بات یقین سے کی جاسکتی ہے کہ اگلی انتظامیہ میں وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نہیں ہوں گی۔
اخبار کے مضمون نگار کے بقول ہیلری کلنٹن کی اس تردید پرتو شبہ کیا جاسکتا ہےکہ وہ 2016ء کا صدارتی انتخاب لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں، لیکن ان کا یہ فیصلہ حتمی لگتا ہے کہ وہ اگلی انتظامیہ میں وزیرِ خارجہ کا عہدہ نہیں سنبھالیں گی۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق واشنگٹن میں مس کلنٹن کے جانشین کی تلاش شروع ہوچکی ہے اور اب تک جو متوقع امیدواران سامنے آئے ہیں ان میں اقوامِ متحدہ کے لیے امریکہ کی سفیر سوزن رائس اور میساچوسٹس سے منتخب سینیٹر جان کیری سرِ فہرست ہیں۔
اخبار کے مطابق ان کے علاوہ نیبراسکا سے سابق ری پبلکن سینیٹر چَک ہیگل بھی اس عہدے کے لیے بطورِ امیدوار سامنے آسکتے ہیں جن کا نام 2008ء میں بھی اس ذمہ داری کے لیے زیرِ غور رہا تھا۔
لیکن مضمون نگار کے بقول مسٹر ہیگل کے عمر رسیدہ ہونے کے باعث یہ قرعہ فال انڈیانا سے ری پبلکن سینیٹر رچرڈ لوگرکے نام بھی نکل سکتا ہے جو اپنے معتدل خیالات کے باعث ڈیموکریٹ 'وہائٹ ہائوس' کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہوسکتے ہیں۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق ان افراد کے علاوہ نئے امریکی وزیرِ خارجہ کے لیے جن ناموں پر غور ہورہا ہے ان میں 'نیشنل سیکیورٹی کونسل' کی عہدیدار اور مصنفہ سمانتھا پاور اور صدر اوباما کے مشیر برائے روس مائیک مک فال بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ برس روس کے لیے امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: