وہائٹ ہاؤس کی طرف سے چینی صدر زی جِن پِنگ کے اختتامِ ہفتہ کے اِس انتباہ کا خیر مقدم کیا گیاہے کہ اس خطے بلکہ پوری دنیا کو خودغرضانہ فوائد کے حصول کے لیے افراتفری میں ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیئے
’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک کالم نگار نے جزیرہ نما کوریا کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی ڈکٹیٹرشپ ہے جس کی معیشت کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔
لیکن، اُس کے لیڈروں کو عالمی رائے عامہ کو توڑنے مروڑنے کے فن میں یدِ طولیٰ حاصل ہے، جیسا کہ موجودہ حالات سے ظاہر ہے، جِن میں اُنھوں نے اپنے اس فن کی ایک اور نادر مثال پیش کی ہے۔
پروفیسر آندرے لنکوف اِس کالم میں کہتے ہیں کہ جو بیسیوں غیر ملکی صحافی اِن بڑھتی ہوئی کشیدگیوں اور امکانی جنگ کی خبریں بھیجنے کے لیے اس وقت سیئول میں موجود ہیں، اُنھیں جنوبی کوریا کا ایک بھی ایسا فرد نہیں ملا جو سراسیمہ ہو، بلکہ حق تو یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے بیشتر لوگ شمالی کوریا کی دھمکیوں سے بالکل سراسیمہ نہیں ہوئے ہیں۔
چناچہ، اگر جنوبی کوریا کا اوسط شہری پُرسکون ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کے بحرانوں سے کئی مرتبہ گزر چکا ہے اور چونکہ وہ شمالی کوریا کی منطق سے واقف ہے اس لیے اسے معلوم ہے کہ شمالی کوریا کے اپنی دھمکیوں پر عمل درآمد کرنے کا امکان نہایت ہی کم ہے۔ اور، کالم نگار کے خیال میں اگر تاریخ سے کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ چند ہفتوں کے اندر حالات پُر سکون ہو جائیں گے اور شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ یہ ڈھنڈورا پیٹنے لگیں گے کہ اُس کی عوامی فوج اور نوجواں لیڈر نے امریکہ کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ اُس نے حملہ کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اور، اِس کے ساتھ ہی، سفارت کار اپنے بین الاقوامی ہم منصبوں سے مالی امداد اور مراعات کی بھیک مانگیں گے۔
آندرے لنکوف کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی اِس نقلی جنگ جوئی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ اور نہ اِسے درخور اعتناٴ سمجھنا چاہیئے۔ نیو یارک اور واشنگٹن کے عوام کے حق میں یہی اچھا ہوگا کہ وہ سیئول کے عوام سے سبق سیکھیں۔
ادھر، ویب سائٹ ’اوپیڈنیوزڈاٹ کام‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر راب کال نے جزیرہ نما کوریا کی دھماکہ خیز صورتِ حال کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت شمالی کوریا میں ایک نئی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے اور ایڈمرل مائیک ملن اس کے لیے شمالی کوریا کی ایسی کوششوں کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں جو وہ مزید امداد حاصل کرنے کے لیے دنیا کو بلیک میل کر رہا ہے۔
راب کال کا خیال ہے حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا جو جنگی مشقیں اس وقت کر رہے ہیں وہ شمالی کوریا کے بہت قریب ایک ایسے علاقے میں ہورہی ہیں جس پر عرصہٴ دراز سے تنازعہ چلا آ رہا ہے اور شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ یہ اُس کا علاقہ ہے۔
چناچہ، شمالی کوریا کا مؤقف ہے کہ ایک ایسے علاقے میں جس کی ملکیت کا وہ دعویٰ کرتا ہے جنگی بحری جہاز لے کر جانا اعلانِ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اِسی لیے، شمالی کوریا کہتا ہے کہ وہ بقول اُس کے، امریکہ اور جنوبی کوریا کی اس اشتعال انگیز حرکت کا جواب دے رہا ہے۔
ادھر، امریکی سینیٹ کی مسلح افواج سے متعلق کمیٹی میں گواہی پیش کرتے ہوئے امریکی بحریہ کے ایڈمرل سمیول لاک لیئر نے جو جزیرہ نما کوریا میں ہونے والی مشقوں کی نگرانی کر رہے ہیں، گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو حملہ کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، اُنھوں نے کہا کہ اُن کی دانست میں چین کوریا کے جزیرہ نما میں جنگ کے ماحول پر اثرانداز ہونے اور وہاں نسبتاً پُرسکون ماحول بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
اِسی کے ساتھ ساتھ وہائٹ ہاؤس کی طرف سے چینی صدر زی جِن پِنگ کے اختتامِ ہفتہ کے اِس انتباہ کا خیر مقدم کیا گیاہے کہ اس خطے بلکہ پوری دنیا کو خودغرضانہ فوائد کے حصول کے لیے افراتفری میں ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔وہائٹ ہاؤس کے بقول، اُن کا روئے سخن شمالی کوریا کی طرف تھا۔
لیکن، اُس کے لیڈروں کو عالمی رائے عامہ کو توڑنے مروڑنے کے فن میں یدِ طولیٰ حاصل ہے، جیسا کہ موجودہ حالات سے ظاہر ہے، جِن میں اُنھوں نے اپنے اس فن کی ایک اور نادر مثال پیش کی ہے۔
پروفیسر آندرے لنکوف اِس کالم میں کہتے ہیں کہ جو بیسیوں غیر ملکی صحافی اِن بڑھتی ہوئی کشیدگیوں اور امکانی جنگ کی خبریں بھیجنے کے لیے اس وقت سیئول میں موجود ہیں، اُنھیں جنوبی کوریا کا ایک بھی ایسا فرد نہیں ملا جو سراسیمہ ہو، بلکہ حق تو یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے بیشتر لوگ شمالی کوریا کی دھمکیوں سے بالکل سراسیمہ نہیں ہوئے ہیں۔
چناچہ، اگر جنوبی کوریا کا اوسط شہری پُرسکون ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کے بحرانوں سے کئی مرتبہ گزر چکا ہے اور چونکہ وہ شمالی کوریا کی منطق سے واقف ہے اس لیے اسے معلوم ہے کہ شمالی کوریا کے اپنی دھمکیوں پر عمل درآمد کرنے کا امکان نہایت ہی کم ہے۔ اور، کالم نگار کے خیال میں اگر تاریخ سے کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ چند ہفتوں کے اندر حالات پُر سکون ہو جائیں گے اور شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ یہ ڈھنڈورا پیٹنے لگیں گے کہ اُس کی عوامی فوج اور نوجواں لیڈر نے امریکہ کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ اُس نے حملہ کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اور، اِس کے ساتھ ہی، سفارت کار اپنے بین الاقوامی ہم منصبوں سے مالی امداد اور مراعات کی بھیک مانگیں گے۔
آندرے لنکوف کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی اِس نقلی جنگ جوئی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ اور نہ اِسے درخور اعتناٴ سمجھنا چاہیئے۔ نیو یارک اور واشنگٹن کے عوام کے حق میں یہی اچھا ہوگا کہ وہ سیئول کے عوام سے سبق سیکھیں۔
ادھر، ویب سائٹ ’اوپیڈنیوزڈاٹ کام‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر راب کال نے جزیرہ نما کوریا کی دھماکہ خیز صورتِ حال کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت شمالی کوریا میں ایک نئی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے اور ایڈمرل مائیک ملن اس کے لیے شمالی کوریا کی ایسی کوششوں کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں جو وہ مزید امداد حاصل کرنے کے لیے دنیا کو بلیک میل کر رہا ہے۔
راب کال کا خیال ہے حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا جو جنگی مشقیں اس وقت کر رہے ہیں وہ شمالی کوریا کے بہت قریب ایک ایسے علاقے میں ہورہی ہیں جس پر عرصہٴ دراز سے تنازعہ چلا آ رہا ہے اور شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ یہ اُس کا علاقہ ہے۔
چناچہ، شمالی کوریا کا مؤقف ہے کہ ایک ایسے علاقے میں جس کی ملکیت کا وہ دعویٰ کرتا ہے جنگی بحری جہاز لے کر جانا اعلانِ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اِسی لیے، شمالی کوریا کہتا ہے کہ وہ بقول اُس کے، امریکہ اور جنوبی کوریا کی اس اشتعال انگیز حرکت کا جواب دے رہا ہے۔
ادھر، امریکی سینیٹ کی مسلح افواج سے متعلق کمیٹی میں گواہی پیش کرتے ہوئے امریکی بحریہ کے ایڈمرل سمیول لاک لیئر نے جو جزیرہ نما کوریا میں ہونے والی مشقوں کی نگرانی کر رہے ہیں، گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو حملہ کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، اُنھوں نے کہا کہ اُن کی دانست میں چین کوریا کے جزیرہ نما میں جنگ کے ماحول پر اثرانداز ہونے اور وہاں نسبتاً پُرسکون ماحول بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
اِسی کے ساتھ ساتھ وہائٹ ہاؤس کی طرف سے چینی صدر زی جِن پِنگ کے اختتامِ ہفتہ کے اِس انتباہ کا خیر مقدم کیا گیاہے کہ اس خطے بلکہ پوری دنیا کو خودغرضانہ فوائد کے حصول کے لیے افراتفری میں ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔وہائٹ ہاؤس کے بقول، اُن کا روئے سخن شمالی کوریا کی طرف تھا۔