رسائی کے لنکس

چین اور شمالی کوریا کے مابین سیاحت و تجارت جاری


بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کو چین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیئے اور اپنی معیشت کے بعض شعبوں کو آہستہ آہستہ باہر کی دنیا کے لیے کھول دینا چاہیئے۔

جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور مشترکہ کوریئن کائیسونگ صنعتی کمپلیکس میں کام رک گیا ہے، لیکن چین اور شمالی کوریا کے درمیان تجارت بلکہ سیاحت بھی جاری ہے ۔

حالیہ ہفتوں میں شمالی کوریا اور دنیا کے بیشتر حصوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی رہی ہے، لیکن اس سے وہاں چینی سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے ۔

چین کے سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، شمالی کوریا میں سیاحت کا سالانہ موسم اس سال قبل از وقت شروع ہو گیا اور ایسے لوگوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے جو شمالی کوریا سیر کے لیے جانا چاہتے ہیں۔

منگل کے روز، شمالی کوریا کی سرحد کے نزدیک چین کے شہر تومِن میں ایک ٹریول ایجنسی سے رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ تند و تیز بیانات کے باوجود، ٹورزاب بھی جاری ہیں۔ ایک ٹریول ایجنٹ کہتی ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ شمالی کوریا اپنی سرحد بند کرے گا۔

ایک اور ٹریول ایجنٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اب غیر ملکی ٹورسٹ نہیں لیے جا رہے ہیں لیکن چینیوں کو اب بھی شمالی کوریا کے اندر جانے کی اجازت ہے، اور تمام ٹرپس پروگرام کے مطابق جاری ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کے لیے تمام ٹرپس پوری طرح بُک ہو چکے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سرحد پر رہتی ہیں، اور انھوں نے شمال کے ساتھ حالات میں کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی ہے۔

چین کے شمال مشرقی صوبے جیلن میں، جس کی سرحدیں شمالی کوریا سے ملتی ہیں، حال ہی میں پیانگ یانگ کے ساتھ تجارت میں 2020 تک ہر سال 13 فیصد اضافے کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ۔ یہ صوبہ ریلوے اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے میں پیسہ لگا رہا ہے جس کے ذریعے کئی شہر راسونگ اسپیشل اکنامک زون سے اور شمالی کوریا کے مشرقی شہر کونگجن سے مل جائیں گے۔

چین شمالی کوریا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، اور جیلن کے صو بے کو جو چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے راسونگ تک رسائی سے جو شمالی کوریا کے شمال مشرقی ساحل پر گرم پانی کی بندرگاہ ہے، زبردست فائدہ ہو گا۔

بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر چنگ ژیاؤہی کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں دو طرفہ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اپنی سرمایہ کاری کا از سرِ نو جائزہ لیا ہے، لیکن اسے روکا نہیں ہے ۔ وہ کہتےہیں کہ چین سے سرمایہ کاری اب زیادہ محتاط انداز سے ہو رہی ہے، اور بعض شعبوں میں سرمایہ کاری رک گئی ہے اور بعض میں سست ہو گئی ہے۔

لیاؤننگ اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے ایک محقق لو چاؤ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا جانے والے بیشتر سرمایہ کاروں کا مقصد پیسہ کمانا ہے کیوں کہ خطرات کے باوجود، وہاں کاروباری مواقع موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین چاہے گا کہ اس کا ہمسایہ اقتصادی اعتبار سے طاقتور ہو۔ اگر شمالی کوریا غریب اور پسماندہ رہ جاتا ہے تو وہ چین کے لیے بوجھ بن جائے گا۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کو چین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیئے اور اپنی معیشت کے بعض شعبوں کو آہستہ آہستہ باہر کی دنیا کے لیے کھول دینا چاہیئے۔ لو کہتے ہیں کہ چین چاہے گا کہ ایسا جلد از جلد ہو جائے، لیکن صرف شمالی کوریا کے لیڈر ہی اس منصوبے کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔

کم جون اُن نے مارچ کے آخر میں اس قسم کی پالیسی اپنانے کا اشارہ دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پیانگ یانگ واشنگٹن کے بارے میں اپنے دھمکی آمیز بیانات میں اضافہ کر رہا تھا ۔

ایک میٹنگ میں شمالی کوریا کی عام استعمال کی چیزوں کی صنعت کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے، کم جونگ اُن نے اقتصادی لحاظ سے ایک طاقتور ملک تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شمالی کوریا کو زراعت اور عام استعمال کی اشیاء کی صنعت کی مل کر ان کی مشترکہ طاقت کو فیصلہ کن وار کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔

اس کے بعد سے اب تک، شمالی کوریا کے جنگی بیانات شہ سرخیوں پر چھائے رہے ہیں، اور جنوبی کوریا اور بیرونی دنیا کے سرمایہ کار وں میں ہلچل مچی ہوئی ہے ۔
XS
SM
MD
LG