امریکی اخبارات سے: القاعدہ سے لاحق خطرہ

اگر القاعدہ کی طاقت اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں میلوں پر پھیلے ہوئے علاقے میں 19 امریکی سفارتی دفاتر کو بند کرنا پڑا، تو یہ سمجھنا کہ اس تنظیم کا قلع قمع کردیا گیا ہے، حماقت ہوگی: ’یو ایس ٹوڈے‘
’یو ایس ٹوڈے‘ اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ کا مشورہ ہے کہ دنیا کو القاعدہ کی دہشت گرد تنظیم سے لاحق خطرہ ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئیے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر القاعدہ کی طاقت اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں میلوں پر پھیلے ہوئے علاقے میں 19 امریکی سفارتی دفاتر کو بند کرنا پڑا، تو یہ سمجھنا کہ اس تنظیم کا قلع قمع کر دیا گیا ہے، حماقت ہوگی۔

اخبار کہتا ہے کہ القاعدہ زخم خوردہ ضرور ہے، اور اسے کمزور کیا گیا ہے۔ اور اسے نئی شکل دی گئی ہے۔ لیکن، یہ حقیقت ذہن میں ضرور رہنی چاہئیے کہ پچھلے 12 سال سے دہشت گردی کے خلاف جو جدوجہدجاری ہے، وُہ قطعاً ختم نہیں ہوئی۔ البتہ، اس خطرے کی نوعیت بدل گئی ہے۔

’اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے بیشتر ابتدائی لیڈروں کو یا تو ہلاک کیا گیا ہے، یا گرفتار کیا جا چکا ہے یا اُنہیں پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ان کی قدر مشترک مذہبی تعصب ہے اور ان کی بیشتر توجہ مقامی اہداف پر ہے۔ لگ رہا ہے کہ عراق میں یہ تنظیم پھر سر اُٹھا رہی ہے۔ اور حال ہی میں کئی حملے کرکے اس نے سینکڑوں انتہاپسند قیدیوں کو رہا کرالیا ہے جس کی وجہ سے عراق میں فرقہ وارانہ تشدد مزید بڑھ جائے گا اور یہ لوگ پڑوسی ملک شام میں دوسرے جہادیوں کی لڑائی میں شامل ہو جایئں گے، جہاں ایک لاکھ افراد پہلے ہی ہلاک ہوچکے ہیں‘۔

’دوسری شدت پسند تنظیمیں صومالیہ، لیبیا اور دوسری جگہوں میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے جہادی بھی ہیں جن کا القاعدہ سےتعلق نہیں ہے۔ اور جو پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ، امریکہ کو براہ راست خطرہ القاعدہ کے تاسیسی رکن ایمن الظواہری سے اور یمن کی القاعدہ شاخ کے سربراہ نصر الوشیشی سے ہے۔ الوشیشی کو ظواہری کی طرف سے ایک پیغام میں حملہ کرنے کی ہدائت دی گئی تھی، جو انٹلی جینس کے ہتھے چڑھا اور اسی کے بعد امریکی سفارت خانون کو بند کیا گیا۔


اخبار کہتا ہے کہ ان انتہا پسندوں کا قلع قمع امریکہ کے ہاتھوں نہیں بلکہ اعتدال پسند مسلمانوں کے ہاتھوں ہونا چاہئے۔ اخبار کہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وُہاں القاعدہ حد سے زیادہ غیر مقبو ل ہے۔

اخبار کا امریکہ کو مشورہ ہے کہ وہ جس پالیسی پر عمل کرتا آیا ہے، اس کو جاری رکھنے نہائت معقول وجوہات ہیں، کیونکہ یہ پالیسی کارگر ثابت ہوئی ہے۔


ایران میں ایک نئے صدر کے انتخاب پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ ایک امن معاہدے کی عدم موجودگی میں ہر ملک کو مشرق وسطیٰ میں یاتو جنگ کا امکان نظر آتا ہے یا پھر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ۔

اخبار کہتا ہے کہ نو منتخب صدر حسن روحانی نے اپنی حلف برداری کے موقع پر جو کچھ کہا اُس میں ان کے پیشرو محمود احمدی نژاد کی انتہاپسندی کے برعکس عقل کی باتیں تھیں۔ اور، انہوں نے باقیماندہ دنیا کے ساتھ تعمیری میل جول پر زور دیا۔

اخبار کہتا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں تعلیم پانے والے اس نئے لیڈر نےجنہیں اصرار ہے کہ وہ اعتدال پسند ہیں، اپنی کابینہ کے لئے جو وزیر چنے ہیں، اُن کے میلان مغرب کی طرف ہے اور وہ اصلاح پسند ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ اگلے دو ماہ اس بات کا امتحان ثابت ہونگے کہ آیا مسٹر روحانی کے انتخاب کے بعد ایران اپنی جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی جوہری ادارے کے مکمل معائنے کے لئے کھول دے گا یا نہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ مسٹر روحانی کا صدر منتخب ہونا جوہری تنازعے کے حل کی بنیاد ثابت ہوگا۔