واشنگٹن —
امریکہ نے پیر کے روز مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے چند سفارتی مشنز دوبارہ کھولے، جب کہ سلامتی سے متعلق خدشات کے پیش ِنظر، علاقے میں واقع 19سفارت خانے اور قونصل خانوں کے دفاتر بند ہیں۔
محکمہٴ خارجہ نے پیر کے دِن بغداد، کابل اور ڈھاکہ کے سفارت خانے کھولنے کے اجازت دی۔
لیکن، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ناورے نے امریکہ کے فیصلے کے ساتھ چلتے ہوئے، یمن کے دارالحکومت صنعا میں اپنے سفارت خانے بند رکھے، جو اِس ہفتے کے اواخر تک بند رہیں گے۔
یمن، جزیرہ نما عربستان میں القاعدہ کا گڑھ ہے، جس گروپ کے بارے میں امریکہ سمجھتا ہے کہ اُس نے مغربی مفادات پر حملے کی ٹھان لی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے خطرے کی صورت کی وضاحت سے احتراز کیا، جس بنا پر سفارت خانے بند کیے گئے ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خطرہ واقعی سنجیدہ ہے۔
متعدد کلیدی امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی طرف سے 2001ء میں امریکہ پر کیے گئے دہشت گرد حملے کے بعد، اب دی جانے والی دہشت گردی کی دھمکی سنجیدہ معلوم ہوتی ہے۔
نیو یارک سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رُکن، پیٹر کنگ نے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ القاعدہ زیادہ مضبوط ہوگیا ہو، کیونکہ اُس نے اپنی کارروائیوں کو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
محکمہٴ خارجہ نے پیر کے دِن بغداد، کابل اور ڈھاکہ کے سفارت خانے کھولنے کے اجازت دی۔
لیکن، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ناورے نے امریکہ کے فیصلے کے ساتھ چلتے ہوئے، یمن کے دارالحکومت صنعا میں اپنے سفارت خانے بند رکھے، جو اِس ہفتے کے اواخر تک بند رہیں گے۔
یمن، جزیرہ نما عربستان میں القاعدہ کا گڑھ ہے، جس گروپ کے بارے میں امریکہ سمجھتا ہے کہ اُس نے مغربی مفادات پر حملے کی ٹھان لی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے خطرے کی صورت کی وضاحت سے احتراز کیا، جس بنا پر سفارت خانے بند کیے گئے ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خطرہ واقعی سنجیدہ ہے۔
متعدد کلیدی امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی طرف سے 2001ء میں امریکہ پر کیے گئے دہشت گرد حملے کے بعد، اب دی جانے والی دہشت گردی کی دھمکی سنجیدہ معلوم ہوتی ہے۔
نیو یارک سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رُکن، پیٹر کنگ نے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ القاعدہ زیادہ مضبوط ہوگیا ہو، کیونکہ اُس نے اپنی کارروائیوں کو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔