مسٹر پُوٹن کا یہ استدلال ہے کہ اگر شام کی بد امنی پر قابو نہ پایا گیا، تو اِس کے نتیجے میں، اِس پورے خطے میں بدامنی کو ہوا لگے گی۔ حتّیٰ کہ، اُن کے اپنے مسلم علاقے تک اِس کے لپیٹ میں آ سکتے ہیں
روس نے شام کے بُحران سے نمٹنے کے لئے، اُس ملک سے کیمیائی ہتھیاروں کو ہٹا کر اُنہیں بین الاقوامی تحویل میں دینے کی جو تجویز رکھی ہے، اُس کی وجہ سے، بقول اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے، روس نے کم از کم فی الوقت، شام میں جنگ کو بڑھنے سے روکنے کی کاوشوں میں ناگزیر فریق کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ شامی بُحران کیا رُخ اختیار کرتا ہے، اس کا تعین کرنے میں اس تجویز کی بناٴ پر صدر پُوٹن کو اچانک اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اور ایک ایسے خطے میں روسی مفادات بحال ہوگئے ہیں جہاں سوئت یونین کے زوال کے بعد، اس کی اہمیت ختم ہو گئی تھی۔ اگرچہ، حالات اب بھی پلٹا کھا سکتے ہیں، لیکن اس وقت ایسا لگ رہاہے کہ مسٹر پوُٹن نے کئی مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔ انہوں نے اپنے پرانے اتحادی بشارلاسد کو سفارتی سہارا فراہم کیا ہے۔جبکہ، زیادہ عرصہ نہیں گُذرا، جب لگ رہا تھا کہ وُہ اقتدار سے محروم ہونے کے قریب ہیں۔ اور جب خُود صدر اوبامہ ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر پُوٹن کا یہ استدلال ہےکہ اگر شام کی بدامنی پر قابو نہ پایا گیا، تو اس کے نتیجے میں اس پورے خطے میں، بد امنی کو ہوا لگے گی۔ حتّیٰ کہ، اُن کے اپنے مسلم علاقے تک اس کے لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈھائی سال قبل، خانہ جنگی کے آغاز ہی سے روس شام کا سب سے مضبوط حامی رہا ہے، جس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کو روکنے کے لئے بار بار ویٹو کا سہارا لیا ہے۔
شام کے ساتھ روس کے تعلقات سوئیت دور سے شروع ہوئے تھے۔ اُسی زمانے سے شام میں وہ روسی بحری اڈہ بھی قائم ہے، جو روسی سرزمین سے باہر روس کا واحد بحر ی اڈّہ ہے۔
اخبار کا خیال ہے کہ اسد حکومت کو بچانے سے زیادہ مسٹر پوُٹن کا بنیادی مقصد اُس بے لگام امریکی طاقت کو روکنا ہے، جو نا پسندیدہ حکومتوں کو اقتدار سے ہٹانے میں اُسے حاصل ہے۔ روس کو عرصہٴ دراز سے سلامتی کونسل میں چین کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر پوٹن کے موقُف کو اُس پُھوٹ سے بھی مدد ملی ہے، جو امریکہ اور اس کے یورپی اتّحادیوں کے درمیان پیدا ہو گئی ہے۔ خاص طور پر جب برطانوی پارلیمنٹ نے فوجی کاروائی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ فی الوقت مسٹر پُوٹن شام پر بین الاقوامی مباحثے کو سلامتی کونسل میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جہاں روس کو ویٹو کا اختیار ہے۔
اخبار نے روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیرین کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چئیرمین، الیکسی پُشکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر اوبامہ کو روسی تجویز ، کو شکرئے کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے قبول کرنا چاہئے، جس کی بدولت وُہ ایک اور جنگ میں اُلجھنے سے بچ جائیں گے۔ اور کانگریس میں ہزیمت ُآٹھانے سے بھی بچ جائیں گے۔
اسی موضوع پر، اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ کہتا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کےذخیرے پر مسٹر پوٹن اور بشارالاسد کے ساتھ کوئی اچھا سمجھوتہ ہونے کے امکانات یا تو قلیل ہیں یا ناممکن۔ لیکن، اس حقیقت کے پیش نظر کہ امریکی عوام نے مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کو ایک اور فوجی مداخلت میں اُلجھانے کو مسترد کر دیا ہے، مسٹر اوبامہ مجبور ہیں کہ اس پیش کش پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔ بشرطیکہ، یہ شامیوں اور روسیوں کی طرف سے کوئی چال نہ ہو۔ پُرامن حل تلاش کرنے میں بے شمار فواید ہیں، مذاکرات ہمیشہ جنگ جدال کے مقابلے میں بہتر راستہ ہے اور یہ سستا بھی پڑتا ہے۔ اور امریکی عوام غیر ممالک میں فوجی مداخلت سے اس قدر عاجز آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے سمجھوتے سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت برقرار ریے گی۔
اخبار کہتا ہے اس تجویز کی وجہ سے شامی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اُن کے پاس واقعتہً کیمیائی ہتھیار ہیں۔ چنانچہ، اگر اس پر سمجھوتہ ہوگیا، تو اس طرح ایک اور ملک کیمیائی ہتھیاروں کے کلب سے علیٰحدہ ہو جائے گا۔ لیکن، اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ کوئی آسان کام ہوگا۔ کیونکہ، کسی ملک کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں سالہا سال لگ سکتے ہیں۔
اسی موضوع پر، معروف تجزیہ کار فرید ذکریا ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں کہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے یا اتفاقیہ طور پر شام کے معاملے میں اوبامہ انتظامیہ محض چند روز قبل کے مقابلے میں اب کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔ اور صدر اوبامہ نے روس کی اس پیشکش کو قبول کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے کہ شام کے کیمیائی اسلحہ خانے کو وہاں سے ہٹا دیا جائے یا شائید تباہ کر دیا جائے۔
فرید ذکریا نے صدر کے اس اعلان کا خاص طور خیر مقدم کیا ہے کہ عراق میں ایک عشرے سے جاری جنگ کے پیشِ نظر امریکہ طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے کی خانہ جنگی کا مسلہ حل نہیں کر سکتا۔
مسٹر اوبامہ کا مقصد محض بین الاقوامی ضابطوں کا احترام بحال کرنا ہے۔ اور اس اعتبار سے انہوں نے ایک اہم کام سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے عالمی رائے عامّہ کو ہموار کیا ہے اور اب اس کا امکان ہے چاہے وہ کتنا محدود ہی کیوں نہ ہو کہ وہ شائد ایک ایسے عمل کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو جایئں جس کی بدولت مانٹر مقرر ہونگے اور شاید یہ ہتھیار تباہ بھی کر دئے جائیں۔ اور یہ بات اب قریب قریب یقینی ہو گئی ہے کہ اسد حکومت ان ہتھیاروں کا دوبارہ استعمال نہ کر سکے گی۔ محض فضائی حملوں کی بدولت ایسا کرنا ناممکن ہوتا۔ روسی صدر کو بھی اس سے اطمینان ہوگا۔ جنہیں یہ فکر رہی ہے کہ یہ ہتھیار کہیں جہادی تنظیموں کے ہاتھ نہ لگیں، جو انہیں اپنے ہموطنوں کیلئے جنوبی روس بھیج سکتے ہیں، جہاں مذہبی انتہا پسندوں کی بھرمار ہے۔
اِسی طرح، شام کا سب سے بڑا مربّی ایران کیمیایئ ہتھیاروں کا ازلی دُشمن رہا ہے، کیونکہ ایران عراق جنگ کے دوران، صدام حسین نے ایرانیوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ شامی بُحران کیا رُخ اختیار کرتا ہے، اس کا تعین کرنے میں اس تجویز کی بناٴ پر صدر پُوٹن کو اچانک اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اور ایک ایسے خطے میں روسی مفادات بحال ہوگئے ہیں جہاں سوئت یونین کے زوال کے بعد، اس کی اہمیت ختم ہو گئی تھی۔ اگرچہ، حالات اب بھی پلٹا کھا سکتے ہیں، لیکن اس وقت ایسا لگ رہاہے کہ مسٹر پوُٹن نے کئی مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔ انہوں نے اپنے پرانے اتحادی بشارلاسد کو سفارتی سہارا فراہم کیا ہے۔جبکہ، زیادہ عرصہ نہیں گُذرا، جب لگ رہا تھا کہ وُہ اقتدار سے محروم ہونے کے قریب ہیں۔ اور جب خُود صدر اوبامہ ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر پُوٹن کا یہ استدلال ہےکہ اگر شام کی بدامنی پر قابو نہ پایا گیا، تو اس کے نتیجے میں اس پورے خطے میں، بد امنی کو ہوا لگے گی۔ حتّیٰ کہ، اُن کے اپنے مسلم علاقے تک اس کے لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈھائی سال قبل، خانہ جنگی کے آغاز ہی سے روس شام کا سب سے مضبوط حامی رہا ہے، جس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کو روکنے کے لئے بار بار ویٹو کا سہارا لیا ہے۔
شام کے ساتھ روس کے تعلقات سوئیت دور سے شروع ہوئے تھے۔ اُسی زمانے سے شام میں وہ روسی بحری اڈہ بھی قائم ہے، جو روسی سرزمین سے باہر روس کا واحد بحر ی اڈّہ ہے۔
اخبار کا خیال ہے کہ اسد حکومت کو بچانے سے زیادہ مسٹر پوُٹن کا بنیادی مقصد اُس بے لگام امریکی طاقت کو روکنا ہے، جو نا پسندیدہ حکومتوں کو اقتدار سے ہٹانے میں اُسے حاصل ہے۔ روس کو عرصہٴ دراز سے سلامتی کونسل میں چین کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر پوٹن کے موقُف کو اُس پُھوٹ سے بھی مدد ملی ہے، جو امریکہ اور اس کے یورپی اتّحادیوں کے درمیان پیدا ہو گئی ہے۔ خاص طور پر جب برطانوی پارلیمنٹ نے فوجی کاروائی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ فی الوقت مسٹر پُوٹن شام پر بین الاقوامی مباحثے کو سلامتی کونسل میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جہاں روس کو ویٹو کا اختیار ہے۔
اخبار نے روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیرین کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چئیرمین، الیکسی پُشکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر اوبامہ کو روسی تجویز ، کو شکرئے کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے قبول کرنا چاہئے، جس کی بدولت وُہ ایک اور جنگ میں اُلجھنے سے بچ جائیں گے۔ اور کانگریس میں ہزیمت ُآٹھانے سے بھی بچ جائیں گے۔
اسی موضوع پر، اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ کہتا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کےذخیرے پر مسٹر پوٹن اور بشارالاسد کے ساتھ کوئی اچھا سمجھوتہ ہونے کے امکانات یا تو قلیل ہیں یا ناممکن۔ لیکن، اس حقیقت کے پیش نظر کہ امریکی عوام نے مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کو ایک اور فوجی مداخلت میں اُلجھانے کو مسترد کر دیا ہے، مسٹر اوبامہ مجبور ہیں کہ اس پیش کش پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔ بشرطیکہ، یہ شامیوں اور روسیوں کی طرف سے کوئی چال نہ ہو۔ پُرامن حل تلاش کرنے میں بے شمار فواید ہیں، مذاکرات ہمیشہ جنگ جدال کے مقابلے میں بہتر راستہ ہے اور یہ سستا بھی پڑتا ہے۔ اور امریکی عوام غیر ممالک میں فوجی مداخلت سے اس قدر عاجز آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے سمجھوتے سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت برقرار ریے گی۔
اخبار کہتا ہے اس تجویز کی وجہ سے شامی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اُن کے پاس واقعتہً کیمیائی ہتھیار ہیں۔ چنانچہ، اگر اس پر سمجھوتہ ہوگیا، تو اس طرح ایک اور ملک کیمیائی ہتھیاروں کے کلب سے علیٰحدہ ہو جائے گا۔ لیکن، اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ کوئی آسان کام ہوگا۔ کیونکہ، کسی ملک کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں سالہا سال لگ سکتے ہیں۔
اسی موضوع پر، معروف تجزیہ کار فرید ذکریا ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں کہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے یا اتفاقیہ طور پر شام کے معاملے میں اوبامہ انتظامیہ محض چند روز قبل کے مقابلے میں اب کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔ اور صدر اوبامہ نے روس کی اس پیشکش کو قبول کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے کہ شام کے کیمیائی اسلحہ خانے کو وہاں سے ہٹا دیا جائے یا شائید تباہ کر دیا جائے۔
فرید ذکریا نے صدر کے اس اعلان کا خاص طور خیر مقدم کیا ہے کہ عراق میں ایک عشرے سے جاری جنگ کے پیشِ نظر امریکہ طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے کی خانہ جنگی کا مسلہ حل نہیں کر سکتا۔
مسٹر اوبامہ کا مقصد محض بین الاقوامی ضابطوں کا احترام بحال کرنا ہے۔ اور اس اعتبار سے انہوں نے ایک اہم کام سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے عالمی رائے عامّہ کو ہموار کیا ہے اور اب اس کا امکان ہے چاہے وہ کتنا محدود ہی کیوں نہ ہو کہ وہ شائد ایک ایسے عمل کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو جایئں جس کی بدولت مانٹر مقرر ہونگے اور شاید یہ ہتھیار تباہ بھی کر دئے جائیں۔ اور یہ بات اب قریب قریب یقینی ہو گئی ہے کہ اسد حکومت ان ہتھیاروں کا دوبارہ استعمال نہ کر سکے گی۔ محض فضائی حملوں کی بدولت ایسا کرنا ناممکن ہوتا۔ روسی صدر کو بھی اس سے اطمینان ہوگا۔ جنہیں یہ فکر رہی ہے کہ یہ ہتھیار کہیں جہادی تنظیموں کے ہاتھ نہ لگیں، جو انہیں اپنے ہموطنوں کیلئے جنوبی روس بھیج سکتے ہیں، جہاں مذہبی انتہا پسندوں کی بھرمار ہے۔
اِسی طرح، شام کا سب سے بڑا مربّی ایران کیمیایئ ہتھیاروں کا ازلی دُشمن رہا ہے، کیونکہ ایران عراق جنگ کے دوران، صدام حسین نے ایرانیوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی تھی۔