ہندوستان نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اُس نے پولیو سے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے، اور یہ کہ تین سال میں وہاں پولیو کا ایک بھی کیس نہیں ہوا ہے۔ لیکن، بد قسمتی سے، پڑوسی پاکستان میں صورت حال سنگین ہے۔ اور یہ واحد ملک ہے جہاں پولیو کے مرض میں مبتلا افراد میں اضافہ ہو رہا ہے
واشنگٹن —
پاکستان میں پولیو کا خاتمہ کرو۔ اِس عنوان سے، اخبار ’شکاگو ٹربیوں‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ہندوستان نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اُس نے پولیو سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے، اور یہ کہ تین سال میں وہاں پولیو کا ایک بھی کیس نہیں ہوا ہے۔ لیکن، بد قسمتی سے، پڑوسی پاکستان میں صورت حال سنگین ہے۔ اور یہ واحد ملک ہے جہاں پولیو کے مرض میں مبتلا افراد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اخبار کا خیال ہے کہ اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے، ضروری ہے کہ ایک اور وبا سے بھی جان چُھڑائی جائے۔ اور، اخبار کے خیال میں، یہ ملک اپاہج کرنے والے مرض سے نجات حاصل کرنے کی جو کوششیں کر رہا ہے، اُن پر اوسامہ بن لادن کا چھوڑا ہوا ترکہ اب بھی اُن کوششوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ بن لادن کا یہ ترکہ سنہ 2011 سے چل رہا ہے، جب امریکی فوجوں نے اس دہشت گرد لیڈر کو ایبٹ آباد شہر میں اُس کی کمین گاہ میں کیفرکردار تک پہنچایا تھا۔ اور سی آئی اے کے اس اوپریشن میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی حمائت حاصل تھی۔
ڈاکٹر آفریدی نے اوسامہ بن لادن اور اُس کے حلیفوں کا سُراغ لگانے کے لئے ڈی این اے کے نمونے اکٹھےکرنے کے لئے ٹیکے لگانے کے ایک پروگرام کا سہارا لیا تھا۔ آفریدی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اور ٹیلی وژن کی خبروں میں اس کیس کی بھرپُور تشہیر کی، جس میں اس ڈاکٹر کو پولیو کے ٹیکے لگانے کے مناظر بھی دکھائے گئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ٹیکہ لگانے کی اس مہم کا جو سہارا لیا گیا تھا، اُس کی وجہ سے پاکستانیوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہو گئے، اور پاکستان کے جن علاقوں میں اسلامی انتہا پسندوں کا غلبہ ہے، انہوں نے صحت کے اس پروگرام کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اور صرف ایک علاقے میں ساڑھے تین لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
اور، اُنہوں نے صحت عامہ کے کارکنوں اور اُن کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہل کاروں پر حملے کرکے کم از کم 40 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پولیو پھیل رہا ہے۔ جس کا اثر دوسرے علاقوں پر بھی پڑے گا۔ اور اس طرح، دنیا بھر سے اس موذی مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنےکی جو کوششیں بار آور ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں، اُن کو دھچکہ پہنچا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ افسوس ناک صورت حال جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور اخبار نے حکومت پاکستان پر زور دیاہے کہ وُہ صحت عامہ کے کارکنوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں پر حملے کرنے والوں کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرے۔ اور ہندوستان کی مثال سے سبق سیکھے جس نے بہت بھاری مشکلات پر قابو پاتے ہوئے17 کروڈ بچوں کو پولیو سے بچایا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جن تنظیموں نے ہندوستان کو اس موُذی وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد بہم پہنچائی ہے۔ وہ پاکستان کو اس مرض سے پاک کرنے میں امداد دینے کے لئے تیار ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ ہندوستان کو اگرچہ اوسامہ بن لادن کی طرح کے ترکے کا سامنا تو نہ تھا، لیکن وہاں پولیو کے خلاف یہ مہم ملک کے سب سے زیادہ گنجان آباد اور غریب ترین شہری علاقوں میں چلانی پڑی ہے۔
اُسے یہ مہم ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں چلانی پڑی ہے، جو پاکستان سے سات گُنا زیادہ ہے۔ اس کام میں غیر سرکاری اداروں نے بھی ہندوستان کا ہاتھ بٹایا، جن میں بل انڈ ملِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور روٹری انٹرنیشنل شامل ہیں۔ بیس لاکھ سے زیادہ کارکنوں کو تربیت دے کر اس کام پر لگادیا گیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پولیو کے کیسز کی اطلاعات نائجیریا، افغانستان اور شام سے اب بھی آتی ہیں۔ لیکن، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاںیہ مرض پھیل رہا ہے، اور حکومت پاکستان کو اس مُوذی مرض کو ختم کرنے کے لئے، سنگین قدم اُٹھانے ہونگے۔
’نیو یارک نیوز ڈے‘ میں معروف تجزیہ کار رچرڈ کوہن لکھتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ شام میں اوبامہ ڈاکٹرن کارگر ثابت نہیں ہورہا جہاں حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں، جس کا خود وزیر خارجہ جان کئیری نے اعتراف کیا ہے۔ کوہن کا سوال ہے کہ بشارالاسد کو لوگوں کا قتل عام کرنے کی کیوں اجازت دی جا رہی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد جو پچھلے موسم خزاں میں ایک لاکھ بیس ہزار تھی اب بڑھ کر ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ محلوں کے محلے نیست و نابود کئے جا رہے ہیں، بے گناہوں اور گناہ گاروں دونوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔
پناہ گزینوں کاسیلاب اردن کی طرف جاری ہے۔ اب تک ساٹھ لاکھ شامی پناہ گزین گھر سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ جن میں سے نصف نے پڑوسی ملکوں میں پناہ لی ہے۔ اگلے ماہ شامی خانہ جنگی کی تیسری برسی ہے اور کالم نگار کو افسوس ہے کہ اس خانہ جنگی میں بر وقت مداخلت نہ کی گئی۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے ایک مضمون کے مطابق، امریکی مسلمان ملک کی باقیماندہ عام آبادی سے کُچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پِو تحقیقی مرکز کے جائزے کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ ملک کی مجموعی ساڑھے ستائیس کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ستّر لاکھ ہے۔ جن کے خواص اور طور طریقے باقی آبادی سے ملتے جلتے ہیں۔ البتہ، اُن میں جوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔ اُن میں طلاق کی شرح کم ہے، ہم جنس پرستی جیسے امور میں اُن کا طرز عمل زیادہ قدامت پسندانہ ہے، 55 فی صد مسلمان شادی شدہ ہیں۔
مجموعی امریکی آبادی میں یہ تناسب 54 فی صد ہے۔ 26 فیصد مسلمانوں کے پاس کالج ڈگریاں ہیں۔ یہ مجموعی تناسب 28 فیصد ہے۔ بیس فیصد مسلمانوں کا اپنا کاروبار ہے۔ پوری قوم میں یہ تناسب 17 فیصد ہے۔ نوے فی صد مسلمانوں کو اس سے اتفاق ہے کہ خواتین کو اپنے گھر سے باہر کام کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ مسجد میں مسلمانوں کی ہفتہ وار حاضری 47 فیصد ہے، گرجا گھروں میں عیسائیوں کی حاضری 45 فیصد ہے۔ مسلمان امریکیوں کے پیشے ڈاکٹروں سے لے کر سافٹ وئیر انجئیروں تک، پرچون بیچنے والوں سے لے کر ٹیکسی ڈرائیوروں تک اور انجنئیروں سے لے کر سرمایہ کاروں تک ہیں۔ نسلی اعتبار سے، مسلمان عرب، افریقی، جنوبی یا جنوب مشرقی ایشیائی، افریقی امریکی، ہسپینک، یورپی، اور مشرقی اور وسط ایشیائی ہیں۔
اخبار کا خیال ہے کہ اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے، ضروری ہے کہ ایک اور وبا سے بھی جان چُھڑائی جائے۔ اور، اخبار کے خیال میں، یہ ملک اپاہج کرنے والے مرض سے نجات حاصل کرنے کی جو کوششیں کر رہا ہے، اُن پر اوسامہ بن لادن کا چھوڑا ہوا ترکہ اب بھی اُن کوششوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ بن لادن کا یہ ترکہ سنہ 2011 سے چل رہا ہے، جب امریکی فوجوں نے اس دہشت گرد لیڈر کو ایبٹ آباد شہر میں اُس کی کمین گاہ میں کیفرکردار تک پہنچایا تھا۔ اور سی آئی اے کے اس اوپریشن میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی حمائت حاصل تھی۔
ڈاکٹر آفریدی نے اوسامہ بن لادن اور اُس کے حلیفوں کا سُراغ لگانے کے لئے ڈی این اے کے نمونے اکٹھےکرنے کے لئے ٹیکے لگانے کے ایک پروگرام کا سہارا لیا تھا۔ آفریدی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اور ٹیلی وژن کی خبروں میں اس کیس کی بھرپُور تشہیر کی، جس میں اس ڈاکٹر کو پولیو کے ٹیکے لگانے کے مناظر بھی دکھائے گئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ٹیکہ لگانے کی اس مہم کا جو سہارا لیا گیا تھا، اُس کی وجہ سے پاکستانیوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہو گئے، اور پاکستان کے جن علاقوں میں اسلامی انتہا پسندوں کا غلبہ ہے، انہوں نے صحت کے اس پروگرام کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اور صرف ایک علاقے میں ساڑھے تین لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
اور، اُنہوں نے صحت عامہ کے کارکنوں اور اُن کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہل کاروں پر حملے کرکے کم از کم 40 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پولیو پھیل رہا ہے۔ جس کا اثر دوسرے علاقوں پر بھی پڑے گا۔ اور اس طرح، دنیا بھر سے اس موذی مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنےکی جو کوششیں بار آور ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں، اُن کو دھچکہ پہنچا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ افسوس ناک صورت حال جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور اخبار نے حکومت پاکستان پر زور دیاہے کہ وُہ صحت عامہ کے کارکنوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں پر حملے کرنے والوں کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرے۔ اور ہندوستان کی مثال سے سبق سیکھے جس نے بہت بھاری مشکلات پر قابو پاتے ہوئے17 کروڈ بچوں کو پولیو سے بچایا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جن تنظیموں نے ہندوستان کو اس موُذی وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد بہم پہنچائی ہے۔ وہ پاکستان کو اس مرض سے پاک کرنے میں امداد دینے کے لئے تیار ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ ہندوستان کو اگرچہ اوسامہ بن لادن کی طرح کے ترکے کا سامنا تو نہ تھا، لیکن وہاں پولیو کے خلاف یہ مہم ملک کے سب سے زیادہ گنجان آباد اور غریب ترین شہری علاقوں میں چلانی پڑی ہے۔
اُسے یہ مہم ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں چلانی پڑی ہے، جو پاکستان سے سات گُنا زیادہ ہے۔ اس کام میں غیر سرکاری اداروں نے بھی ہندوستان کا ہاتھ بٹایا، جن میں بل انڈ ملِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور روٹری انٹرنیشنل شامل ہیں۔ بیس لاکھ سے زیادہ کارکنوں کو تربیت دے کر اس کام پر لگادیا گیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پولیو کے کیسز کی اطلاعات نائجیریا، افغانستان اور شام سے اب بھی آتی ہیں۔ لیکن، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاںیہ مرض پھیل رہا ہے، اور حکومت پاکستان کو اس مُوذی مرض کو ختم کرنے کے لئے، سنگین قدم اُٹھانے ہونگے۔
’نیو یارک نیوز ڈے‘ میں معروف تجزیہ کار رچرڈ کوہن لکھتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ شام میں اوبامہ ڈاکٹرن کارگر ثابت نہیں ہورہا جہاں حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں، جس کا خود وزیر خارجہ جان کئیری نے اعتراف کیا ہے۔ کوہن کا سوال ہے کہ بشارالاسد کو لوگوں کا قتل عام کرنے کی کیوں اجازت دی جا رہی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد جو پچھلے موسم خزاں میں ایک لاکھ بیس ہزار تھی اب بڑھ کر ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ محلوں کے محلے نیست و نابود کئے جا رہے ہیں، بے گناہوں اور گناہ گاروں دونوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔
پناہ گزینوں کاسیلاب اردن کی طرف جاری ہے۔ اب تک ساٹھ لاکھ شامی پناہ گزین گھر سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ جن میں سے نصف نے پڑوسی ملکوں میں پناہ لی ہے۔ اگلے ماہ شامی خانہ جنگی کی تیسری برسی ہے اور کالم نگار کو افسوس ہے کہ اس خانہ جنگی میں بر وقت مداخلت نہ کی گئی۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے ایک مضمون کے مطابق، امریکی مسلمان ملک کی باقیماندہ عام آبادی سے کُچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پِو تحقیقی مرکز کے جائزے کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ ملک کی مجموعی ساڑھے ستائیس کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ستّر لاکھ ہے۔ جن کے خواص اور طور طریقے باقی آبادی سے ملتے جلتے ہیں۔ البتہ، اُن میں جوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔ اُن میں طلاق کی شرح کم ہے، ہم جنس پرستی جیسے امور میں اُن کا طرز عمل زیادہ قدامت پسندانہ ہے، 55 فی صد مسلمان شادی شدہ ہیں۔
مجموعی امریکی آبادی میں یہ تناسب 54 فی صد ہے۔ 26 فیصد مسلمانوں کے پاس کالج ڈگریاں ہیں۔ یہ مجموعی تناسب 28 فیصد ہے۔ بیس فیصد مسلمانوں کا اپنا کاروبار ہے۔ پوری قوم میں یہ تناسب 17 فیصد ہے۔ نوے فی صد مسلمانوں کو اس سے اتفاق ہے کہ خواتین کو اپنے گھر سے باہر کام کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ مسجد میں مسلمانوں کی ہفتہ وار حاضری 47 فیصد ہے، گرجا گھروں میں عیسائیوں کی حاضری 45 فیصد ہے۔ مسلمان امریکیوں کے پیشے ڈاکٹروں سے لے کر سافٹ وئیر انجئیروں تک، پرچون بیچنے والوں سے لے کر ٹیکسی ڈرائیوروں تک اور انجنئیروں سے لے کر سرمایہ کاروں تک ہیں۔ نسلی اعتبار سے، مسلمان عرب، افریقی، جنوبی یا جنوب مشرقی ایشیائی، افریقی امریکی، ہسپینک، یورپی، اور مشرقی اور وسط ایشیائی ہیں۔