اسلام آباد —
پاکستان نے امریکہ کی طرف سے تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر امداد کی فراہمی کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کی فراہمی کو اس معاملے سے منسلک کرنا دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کی کوششوں کے منافی ہے۔
دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستانی شہری ہیں اور وہ ملک کے قوانین کی خلاف ورزی پر قید ہیں۔ بیان میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے تاہم اُن کے لیے انصاف حاصل کرنے کے راستے کھلے ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈاکٹر آفریدی کے اقدامات سے ملک میں انسداد پولیو مہم کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
’’وہ مجرم ہیں اس قوم کے، اُن کے ساتھ امداد کی فراہمی کو منسلک کرنے کو ہم (افسوسناک) سمجھتے ہیں۔‘‘
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ باہمی احترام اور مفاد پر مبنی قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلام آباد چاہتا ہے کہ یہ عمل تعمیری انداز میں آگے بڑھے۔
امریکہ میں کانگریس نے حال ہی میں 2014ء کے لیے بجٹ قانون کی منظوری دی جس پر صدر براک اوباما نے 17 جنوری کو دستخط کر دیئے تھے۔
بجٹ قانون میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے لیے تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر امداد کو امریکی انتظامیہ اُس وقت تک روک کر رکھے جب تک کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہیں، اُنھیں دو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی پر یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
قبائلی عدالتی نظام کے تحت خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے 2012ء میں شکیل آفریدی کو مقامی شدت پسند تنظیم سے راوبط اور اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے پر 33 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
امریکی عہدیدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں اُٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کی گئی تھی۔
تاہم پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ عدالت ہی کر ے گی۔
پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں یہ تلخی ایسے وقت پیدا ہوئی جب کہ دونوں ملکوں کے طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کا وزراء کی سطح کا آئندہ اجلاس 27 جنوری کو واشنگٹن میں طے ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ واشنگٹن میں اعلٰی سطحی سفارتی روابط میں امداد کی فراہمی سے متعلق معاملے پر بات چیت ہو گی۔
’’دوطرفہ تعلقات (کے لیے) بننے والے (پانچ) ورکنگ گروپوں کی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے گا کہ آگے کیا ہونا چاہیئے۔‘‘
اسٹریٹیجک مذاکرات میں وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے جب کہ امریکی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے اسٹریٹیجک مذاکرات گزشتہ سال اگست میں بحال ہوئے جب امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستانی شہری ہیں اور وہ ملک کے قوانین کی خلاف ورزی پر قید ہیں۔ بیان میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے تاہم اُن کے لیے انصاف حاصل کرنے کے راستے کھلے ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈاکٹر آفریدی کے اقدامات سے ملک میں انسداد پولیو مہم کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
’’وہ مجرم ہیں اس قوم کے، اُن کے ساتھ امداد کی فراہمی کو منسلک کرنے کو ہم (افسوسناک) سمجھتے ہیں۔‘‘
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ باہمی احترام اور مفاد پر مبنی قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلام آباد چاہتا ہے کہ یہ عمل تعمیری انداز میں آگے بڑھے۔
امریکہ میں کانگریس نے حال ہی میں 2014ء کے لیے بجٹ قانون کی منظوری دی جس پر صدر براک اوباما نے 17 جنوری کو دستخط کر دیئے تھے۔
بجٹ قانون میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے لیے تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر امداد کو امریکی انتظامیہ اُس وقت تک روک کر رکھے جب تک کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہیں، اُنھیں دو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی پر یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
قبائلی عدالتی نظام کے تحت خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے 2012ء میں شکیل آفریدی کو مقامی شدت پسند تنظیم سے راوبط اور اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے پر 33 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
امریکی عہدیدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں اُٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کی گئی تھی۔
تاہم پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ عدالت ہی کر ے گی۔
پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں یہ تلخی ایسے وقت پیدا ہوئی جب کہ دونوں ملکوں کے طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کا وزراء کی سطح کا آئندہ اجلاس 27 جنوری کو واشنگٹن میں طے ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ واشنگٹن میں اعلٰی سطحی سفارتی روابط میں امداد کی فراہمی سے متعلق معاملے پر بات چیت ہو گی۔
’’دوطرفہ تعلقات (کے لیے) بننے والے (پانچ) ورکنگ گروپوں کی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے گا کہ آگے کیا ہونا چاہیئے۔‘‘
اسٹریٹیجک مذاکرات میں وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے جب کہ امریکی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے اسٹریٹیجک مذاکرات گزشتہ سال اگست میں بحال ہوئے جب امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔