امریکہ کے اتّحادیوں کو نہ صرف ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے بارے میں تشویش ہے، بلکہ اس پر بھی کہ اس کی وجہ سے ایران کی طاقت میں اضافہ ہوگا: اخباری رپورٹ
واشنگٹن —
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ امریکہ کے اتّحادیوں کو نہ صرف ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے بارے میں تشویش ہے، بلکہ اس پر بھی کہ اس کی وجہ سے ایران کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اسرائیل، سعودی عرب اور خلیج کی امارات سمیت مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتّحادیوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ دونوں میں سے کون سی بات بد تر ہے۔
جوہری پروگرام پر مغربی طاقتوں کا ایران سے طے پانے والا حالیہ سمجھوتہ، یا یہ حقیقت کہ امریکہ کا ایران کے ساتھ رابطہ بڑھانا، اور اُن کے ازلی دُشمن کے لئے ایک عظیم طاقت بننے کے لئے راہ ہموار کرنا۔ اور امریکہ ان خدشات کو دور کرنے میں مصروف ہے۔
صدر اوبامہ ٹیلیفون پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سےگفتگو کرچکے ہیں اور اگلے ہفتے اسرائیل کے سیکیورٹی کے ایک وفد کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے چکے ہیں، تاکہ اُس جامع سمجھوتے پر گفتگو کی جائے جو عالمی طاقتیں اگلے چھ ماہ کے دوران ایران کے ساتھ طے کرنا چاہتی ہیں۔
وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اسرائیل کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اُنہوں نے یقین دہانی کردی ہے کہ جینیوا میں طے پانے والے اس معاہدے کی وجہ سے اسرائیل پہلے سے بھی زیادہ محفوظ ہے۔
اور اسرائیلی لیڈر نے اب جو کہا ہے کہ ان کی تمام تر توجہ ایران کی جوہری صلاحیت کو نیست و نابود کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس سے بعض تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو اب اعلانیہ تسلیم کر رہے ہیں کہ حتمی سمجھوتہ طے ہونے پر ایران اپنے جوہری پروگرام کا کُچھ حصّہ برقرار رکھ سکتا ہے، جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ مذاکرا ت کے ابتدائی مرحلوں میں اسرائیل سے یہ توقّع کرنا مشکل ہے کہ وُہ ایران کے یورنیم کی افزودگی کے کُچھ پروگرام کو برقرار رکھنے کے لئے تیار ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ایران کے ساتھ اس جوہری سودے پر سعودی عرب کو اسرائیل بھی زیادہ تشویش ہے۔ سعودی انٹلی جینس کے ایک سابق مشیر، نواف عُبید نے لندن میں ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ سعودیوں کو اس بات پر خاص طور پر دُکھ ہوا ہے کہ امریکیوں اور ایرانیوں کے مابین اس سے پہلے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں، جو ہم سے چھپائے گئے تھے۔
نیو یارک میں قائم اسرائیلی پالیسی فورم کے ایک سکالر سٹیون سپیگل نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ اصلاح احوال کا ایک طریق یہ ہو سکتا ہے کہ وُہ اس علاقے کے اتّحادیوں کے ساتھ سیکیورٹی کا ایک نیٹ ورک قائم کرنے پر غور کرے۔
انٹر نیٹ اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، نائن الیون کے ابتدائی دور میں سی آئی اے نے خلیج گوانتانامو کے فوجی قید خانے کے بعض قیدیوں کو ڈبل ایجنٹ بنا دیا تھا، تاکہ وُہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں امریکہ کی امداد کریں۔ یہ انکشاف اس ادارے کے سابق اور موجودہ اہل کاروں نے اس شرط پر کیا ہے کہ اُن کے نام صیغہٴراز میں رکھے جائیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ درجنوں قیدیوں کو اس کام کے لئے پرکھا گیا۔ لیکن، اُن میں سے صرف چند ہی کو، جن کا تعلّق مختلف ملکوں سےتھا، جاسوسی کا کام سونپا گیا۔ اور اُنہوں نے سی آئی اے کے لئے کام کرنے کے لئے معاہدوں پر دستخط کئے۔ سی آئی اے کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اُدھر، امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ گوانتانامو کے سابق قیدیوں میں سے بارہ فی صد امریکہ کے خلاف لڑائی میں پھر شامل ہو گئے۔
اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پروگرام سنہ 2006 میں بند کیا گیا، کیونکہ گوانتانامو کے قیدخانے میں لائے جانے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی۔ اور آخری قیدی سنہ 2008 میں وُہاں پہنچا۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ کی رپورٹ ہے کہ 60 سال قبل کانگریس کی امریکہ دشمن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی کمیٹی نے سماعتیں منعقد کی تھیں، تاکہ ہالی وُڈ کو کمیونسٹ جاسوسوں سے پاک کیا جائے۔ اور اب، ہالی وُڈ کے ایک معروف پروڈیوسر نے فخریہ اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتا آیا ہے۔ آرنان مِلکن نامی پروڈیوسر نے کہا ہے کہ میں نے یہ کام اپنے ملک یعنی اسرائیل کے لئے کیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ اس کی سرگرمیوں میں ایسی ٹیکنالوجی خریدنا شامل تھی، جن کی جوہری ہتھیار چلانے میں ضرورت پڑتی ہے۔۔
جوہری پروگرام پر مغربی طاقتوں کا ایران سے طے پانے والا حالیہ سمجھوتہ، یا یہ حقیقت کہ امریکہ کا ایران کے ساتھ رابطہ بڑھانا، اور اُن کے ازلی دُشمن کے لئے ایک عظیم طاقت بننے کے لئے راہ ہموار کرنا۔ اور امریکہ ان خدشات کو دور کرنے میں مصروف ہے۔
صدر اوبامہ ٹیلیفون پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سےگفتگو کرچکے ہیں اور اگلے ہفتے اسرائیل کے سیکیورٹی کے ایک وفد کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے چکے ہیں، تاکہ اُس جامع سمجھوتے پر گفتگو کی جائے جو عالمی طاقتیں اگلے چھ ماہ کے دوران ایران کے ساتھ طے کرنا چاہتی ہیں۔
وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اسرائیل کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اُنہوں نے یقین دہانی کردی ہے کہ جینیوا میں طے پانے والے اس معاہدے کی وجہ سے اسرائیل پہلے سے بھی زیادہ محفوظ ہے۔
اور اسرائیلی لیڈر نے اب جو کہا ہے کہ ان کی تمام تر توجہ ایران کی جوہری صلاحیت کو نیست و نابود کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس سے بعض تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو اب اعلانیہ تسلیم کر رہے ہیں کہ حتمی سمجھوتہ طے ہونے پر ایران اپنے جوہری پروگرام کا کُچھ حصّہ برقرار رکھ سکتا ہے، جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ مذاکرا ت کے ابتدائی مرحلوں میں اسرائیل سے یہ توقّع کرنا مشکل ہے کہ وُہ ایران کے یورنیم کی افزودگی کے کُچھ پروگرام کو برقرار رکھنے کے لئے تیار ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ایران کے ساتھ اس جوہری سودے پر سعودی عرب کو اسرائیل بھی زیادہ تشویش ہے۔ سعودی انٹلی جینس کے ایک سابق مشیر، نواف عُبید نے لندن میں ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ سعودیوں کو اس بات پر خاص طور پر دُکھ ہوا ہے کہ امریکیوں اور ایرانیوں کے مابین اس سے پہلے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں، جو ہم سے چھپائے گئے تھے۔
نیو یارک میں قائم اسرائیلی پالیسی فورم کے ایک سکالر سٹیون سپیگل نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ اصلاح احوال کا ایک طریق یہ ہو سکتا ہے کہ وُہ اس علاقے کے اتّحادیوں کے ساتھ سیکیورٹی کا ایک نیٹ ورک قائم کرنے پر غور کرے۔
انٹر نیٹ اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، نائن الیون کے ابتدائی دور میں سی آئی اے نے خلیج گوانتانامو کے فوجی قید خانے کے بعض قیدیوں کو ڈبل ایجنٹ بنا دیا تھا، تاکہ وُہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں امریکہ کی امداد کریں۔ یہ انکشاف اس ادارے کے سابق اور موجودہ اہل کاروں نے اس شرط پر کیا ہے کہ اُن کے نام صیغہٴراز میں رکھے جائیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ درجنوں قیدیوں کو اس کام کے لئے پرکھا گیا۔ لیکن، اُن میں سے صرف چند ہی کو، جن کا تعلّق مختلف ملکوں سےتھا، جاسوسی کا کام سونپا گیا۔ اور اُنہوں نے سی آئی اے کے لئے کام کرنے کے لئے معاہدوں پر دستخط کئے۔ سی آئی اے کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اُدھر، امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ گوانتانامو کے سابق قیدیوں میں سے بارہ فی صد امریکہ کے خلاف لڑائی میں پھر شامل ہو گئے۔
اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پروگرام سنہ 2006 میں بند کیا گیا، کیونکہ گوانتانامو کے قیدخانے میں لائے جانے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی۔ اور آخری قیدی سنہ 2008 میں وُہاں پہنچا۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ کی رپورٹ ہے کہ 60 سال قبل کانگریس کی امریکہ دشمن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی کمیٹی نے سماعتیں منعقد کی تھیں، تاکہ ہالی وُڈ کو کمیونسٹ جاسوسوں سے پاک کیا جائے۔ اور اب، ہالی وُڈ کے ایک معروف پروڈیوسر نے فخریہ اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتا آیا ہے۔ آرنان مِلکن نامی پروڈیوسر نے کہا ہے کہ میں نے یہ کام اپنے ملک یعنی اسرائیل کے لئے کیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ اس کی سرگرمیوں میں ایسی ٹیکنالوجی خریدنا شامل تھی، جن کی جوہری ہتھیار چلانے میں ضرورت پڑتی ہے۔۔