واشنگٹن —
صدر براک اوبامہ نے نائب صدر جو بائیڈن کےذمّے یہ کام لگایا ہے کہ وہ امریکہ میں بارُودی اسلحے کی مدد سے کی جانے والے تشدّد کی وارداتوں پرقابو پانے کے لئے سفارشات مرتّب کریں، تاکہ کنٹی کٹ کےقصبے نیو ٹاؤن کے پرائمری سکول میں ہونے والی قتلِ عام جیسی وارداتوں کو روکنے کی کوشش کی جا ئے، جس میں ایک بیس سالہ شقی القلب کے ہاتھوں 20 معصوم بچوں سمیت 26 افراد کا خونٕ ناحق ہوا تھا۔ بُدھ کے روز اِس قتل عام میں شہید ہونے والی ایک 20سالہ بہادُر استانی کو دفنایا گیا جس نے بچوں کو بچانے کی کوشش میں اپنے آپ کی قربانی دی تھی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک ادارئے میں صدر اوبامہ کی اِس بات پر تعریف کی ہے کہ اُنہوں نے وقت ضائع کئے بغیر نیو ٹاؤن کے اِس سانحے کے فوراً بعد گن کنٹرول کے مقصدسے یہ قدم اُٹھایا ہے ، لیکن اُن کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ آیا وُہ اس لمحے کو ، جب پُوری قوم کی توجّہ اس مسئلے پر مرکُوزہے، اِس مقصد کےحصول کے لئے استعمال کر سکیں گے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ کیونکہ، اُن کو یقینی طور پر اِس قسم کی قانون سازی کی صورت میں ایسے ہتھیاروں کے طاقتور مالکوں اور ان ہتھیاروں کے بنانے والوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اخبارنے صدرکی اِس بات سےاتفاق کیا ہے کہ یہ مسئلہ دراصل بارودی ہتھیاروں سے ماورا جاتا ہے اورجیسا کہ صدر نے کہا یہ ہتھیارجتنی آسانی سے دستیاب ہوتےہیں دماغی صحت کی نگہداشت بھی تو اُتنی ہی آسانی سے مل جانی چاہئیے۔ تشدّد اور ہتھیاروں کے استعمال کو امریکی کلچر میں جو مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے ، اس کی طرف بھی صدر نے توجّہ دلائی اور اُنہوں نےتین ایسے شعبے گنوائے جن میں ٹھوس قدم اُٹھا کر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔اول فوجی سٹائیل ہتھیاروں کو ممنوع قرار دینا۔ دوسرےحد سے زیادہ کارتوسوں سے بھرے ہوئے کلپس کی فروخت کی ممانعت اور تیسرے بندوقوں کی نمائشوں میں گاہک کے مکمل کوائف کی تفتیش کئے بغیر ہتھیاروں کی فروخت کی مکمل ممانعت۔
صدر نے اس کے ساتھ جوکہا ہے کہ امریکی عوام کی اکژیت ان اقدامات کی حمائت کرتی ہے،اُس پراخبار کا کہنا ہے کہ رائے عامہ کےجائزوں کےمطابق یہ اکژیت بھاری نہیں ہے اور پچاس فیصد سے ذرا زیادہ لوگ اس کے حامی ہیں۔ اور یہ صورت بدل بھی سکتی ہے۔
اسی موضوع پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرببون‘ کہتا ہے کہ بدھ کے روز صدر اوبامہ نے نائب صدر جو بائڈن کو جس کام کے لئے ایک ماہ کی مہلت دی ہے وہ اُسے اُسی سہ پہر کو ختم کر سکتے تھے ۔
اخبار کہتا ہے کہ وقت آگیا ہے جب چند ایسی ٹھوس تجاویز مرتّب کی جانی چاہیئں جن کی مدد سےقوم کوبندوق کے خلاف تحفّظ فراہم کیا جانا چاہئیے۔ اور اس کےطریقے معروف ہیں، کیونکہ قوم بہت مرتبہ بندوقو ں سے کی گئی قتل عام کی کئی وارداتوں سے گُذر چکی ہے۔صرف کانگریس اس تجربے سے نہیں گذری ہے۔
سالہاسال تک گن کنٹرول سے متعلق معقول بٕل اس میں پیش کئے گئے تھے جو سب مسترد کر دئے گئے۔ اور اگر اس سے کوئی بل پاس بھی ہوا تو وہ بالکل کھوکھلا تھا۔ اگر کوئی ایسا بل پیش ہوتا جس میں مخصوص کارتوسوں کو ممنوع قرار دینے کی بات ہوتی تو اُس کو ہنسی کا نشانہ بنایا جاتا۔
اخبار کہتا ہے کہ کانگریس اس معاملے میں حیلوں اور بہانوں کا شکار رہی ہے اور ری پبلکنز یہ تو کہتے ہیں کہ وہ تشدّد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔لیکن، اُن کا موقّف ہے کہ حملےکے لئے استعمال ہونے والےہتھیاروں یعنی Assault Riflesپر بات نہیں ہو سکتی۔
اخبارکہتا ہے کہ صدر اوبامہ اُن کے کہنے میں آگئے جب انہوں نے امریکی کلچر میں تشدّد اور ہتھیاروں کے استعمال کی مقبولیت اور اہمیت کی بات کی اور کہا کہ کسی بھی قدم کا آغاز ہمارے اپنے گھروں کے اندر سےاور دلوں کے اندر سے ہونا چاہئیے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر مسٹر اوبامہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو اُنہیں بالکل معلوم ہے کہ ہمیں کرنا کیا چاہئیے۔
جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات میں قدامت پسند نیو فرنٹئیر پارٹی کی خاتون امّید وار پارک گوئین ہائی کامیاب ہوئی ہیں۔ وُہ اس ملک کی پہلی خاتون صدر ہونگی ۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ مس پارک، جو 960 اور 1970 کی دہائی کے دور کے آمر حکمران پارک چنگ ہی کی بیٹی ہیں، اور فروری میں اپنا عہدہ سنبھالنے والی ہیں اور اُن سے سبکدوش ہونے والے صدر لی مُیونگ باک کی قدامت پسند پالیسیاں جاری رکھنے کی توقّع کی جارہی ہے۔ اخبار نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گی جو لی کے پنچ سالہ دور حکومت میں خراب ہو گئےہیں۔ مس پارک سنہ 2002 میں شمالی کوریا گئی تھیں اوراس وقت کےلیڈر کٕم جانگ إل سےملی تھیں۔ اُن کے بیٹےکٕم جانگ ان نےباپ کی وفات کےبعد ملک کی عنان حکومت سنبھالی ہے۔
اخبارکہتا ہے نیرنگئی تقدیر دیکھئے کہ باوجودیکہ پانچ کروڑ آبادی والےجنوبی کوریا کی جاندار جمہوریت مسلّم ہے۔
ایک خاتوں کا صدر منتخب ہونا جنوبی کوریا کی سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ جونہائت ہی ترقّی یافتہ معیشت کےباوجود جنسی مساوات کے میدان میں 135ملکوں میں ایک سو آٹھویں نمبر پر ہے۔بعض خواتین نے مس پارک کو ایشیا کی اُن بیٹیوں یا بیواؤں کی طویل فہرست میں شامل کر رکھا تھا، جنہوں نےمردوں کی وساطت سے سیاسی عہدے حاصل کئے۔ جیسے ہندوستان کی اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی۔انڈونشیا کی میگا وتی سیوکارنو پتری، پاکستان کی بے نظیر بھٹو اور فلیپینز کی کورازان اکینو اور گلوریا ارویو۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک ادارئے میں صدر اوبامہ کی اِس بات پر تعریف کی ہے کہ اُنہوں نے وقت ضائع کئے بغیر نیو ٹاؤن کے اِس سانحے کے فوراً بعد گن کنٹرول کے مقصدسے یہ قدم اُٹھایا ہے ، لیکن اُن کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ آیا وُہ اس لمحے کو ، جب پُوری قوم کی توجّہ اس مسئلے پر مرکُوزہے، اِس مقصد کےحصول کے لئے استعمال کر سکیں گے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ کیونکہ، اُن کو یقینی طور پر اِس قسم کی قانون سازی کی صورت میں ایسے ہتھیاروں کے طاقتور مالکوں اور ان ہتھیاروں کے بنانے والوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اخبارنے صدرکی اِس بات سےاتفاق کیا ہے کہ یہ مسئلہ دراصل بارودی ہتھیاروں سے ماورا جاتا ہے اورجیسا کہ صدر نے کہا یہ ہتھیارجتنی آسانی سے دستیاب ہوتےہیں دماغی صحت کی نگہداشت بھی تو اُتنی ہی آسانی سے مل جانی چاہئیے۔ تشدّد اور ہتھیاروں کے استعمال کو امریکی کلچر میں جو مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے ، اس کی طرف بھی صدر نے توجّہ دلائی اور اُنہوں نےتین ایسے شعبے گنوائے جن میں ٹھوس قدم اُٹھا کر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔اول فوجی سٹائیل ہتھیاروں کو ممنوع قرار دینا۔ دوسرےحد سے زیادہ کارتوسوں سے بھرے ہوئے کلپس کی فروخت کی ممانعت اور تیسرے بندوقوں کی نمائشوں میں گاہک کے مکمل کوائف کی تفتیش کئے بغیر ہتھیاروں کی فروخت کی مکمل ممانعت۔
صدر نے اس کے ساتھ جوکہا ہے کہ امریکی عوام کی اکژیت ان اقدامات کی حمائت کرتی ہے،اُس پراخبار کا کہنا ہے کہ رائے عامہ کےجائزوں کےمطابق یہ اکژیت بھاری نہیں ہے اور پچاس فیصد سے ذرا زیادہ لوگ اس کے حامی ہیں۔ اور یہ صورت بدل بھی سکتی ہے۔
اسی موضوع پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرببون‘ کہتا ہے کہ بدھ کے روز صدر اوبامہ نے نائب صدر جو بائڈن کو جس کام کے لئے ایک ماہ کی مہلت دی ہے وہ اُسے اُسی سہ پہر کو ختم کر سکتے تھے ۔
اخبار کہتا ہے کہ وقت آگیا ہے جب چند ایسی ٹھوس تجاویز مرتّب کی جانی چاہیئں جن کی مدد سےقوم کوبندوق کے خلاف تحفّظ فراہم کیا جانا چاہئیے۔ اور اس کےطریقے معروف ہیں، کیونکہ قوم بہت مرتبہ بندوقو ں سے کی گئی قتل عام کی کئی وارداتوں سے گُذر چکی ہے۔صرف کانگریس اس تجربے سے نہیں گذری ہے۔
سالہاسال تک گن کنٹرول سے متعلق معقول بٕل اس میں پیش کئے گئے تھے جو سب مسترد کر دئے گئے۔ اور اگر اس سے کوئی بل پاس بھی ہوا تو وہ بالکل کھوکھلا تھا۔ اگر کوئی ایسا بل پیش ہوتا جس میں مخصوص کارتوسوں کو ممنوع قرار دینے کی بات ہوتی تو اُس کو ہنسی کا نشانہ بنایا جاتا۔
اخبار کہتا ہے کہ کانگریس اس معاملے میں حیلوں اور بہانوں کا شکار رہی ہے اور ری پبلکنز یہ تو کہتے ہیں کہ وہ تشدّد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔لیکن، اُن کا موقّف ہے کہ حملےکے لئے استعمال ہونے والےہتھیاروں یعنی Assault Riflesپر بات نہیں ہو سکتی۔
اخبارکہتا ہے کہ صدر اوبامہ اُن کے کہنے میں آگئے جب انہوں نے امریکی کلچر میں تشدّد اور ہتھیاروں کے استعمال کی مقبولیت اور اہمیت کی بات کی اور کہا کہ کسی بھی قدم کا آغاز ہمارے اپنے گھروں کے اندر سےاور دلوں کے اندر سے ہونا چاہئیے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر مسٹر اوبامہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو اُنہیں بالکل معلوم ہے کہ ہمیں کرنا کیا چاہئیے۔
جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات میں قدامت پسند نیو فرنٹئیر پارٹی کی خاتون امّید وار پارک گوئین ہائی کامیاب ہوئی ہیں۔ وُہ اس ملک کی پہلی خاتون صدر ہونگی ۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ مس پارک، جو 960 اور 1970 کی دہائی کے دور کے آمر حکمران پارک چنگ ہی کی بیٹی ہیں، اور فروری میں اپنا عہدہ سنبھالنے والی ہیں اور اُن سے سبکدوش ہونے والے صدر لی مُیونگ باک کی قدامت پسند پالیسیاں جاری رکھنے کی توقّع کی جارہی ہے۔ اخبار نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گی جو لی کے پنچ سالہ دور حکومت میں خراب ہو گئےہیں۔ مس پارک سنہ 2002 میں شمالی کوریا گئی تھیں اوراس وقت کےلیڈر کٕم جانگ إل سےملی تھیں۔ اُن کے بیٹےکٕم جانگ ان نےباپ کی وفات کےبعد ملک کی عنان حکومت سنبھالی ہے۔
اخبارکہتا ہے نیرنگئی تقدیر دیکھئے کہ باوجودیکہ پانچ کروڑ آبادی والےجنوبی کوریا کی جاندار جمہوریت مسلّم ہے۔
ایک خاتوں کا صدر منتخب ہونا جنوبی کوریا کی سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ جونہائت ہی ترقّی یافتہ معیشت کےباوجود جنسی مساوات کے میدان میں 135ملکوں میں ایک سو آٹھویں نمبر پر ہے۔بعض خواتین نے مس پارک کو ایشیا کی اُن بیٹیوں یا بیواؤں کی طویل فہرست میں شامل کر رکھا تھا، جنہوں نےمردوں کی وساطت سے سیاسی عہدے حاصل کئے۔ جیسے ہندوستان کی اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی۔انڈونشیا کی میگا وتی سیوکارنو پتری، پاکستان کی بے نظیر بھٹو اور فلیپینز کی کورازان اکینو اور گلوریا ارویو۔