امریکی اخبارات سے: ایڈز کا موذی مرض

سنہ 2003 سے امریکی کانگریس نے ایڈز کی بیماری کے لئے صدر کے ہنگامی فنڈ کے لئے 38 ، ارب ڈالر دئے جا چُکے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ اِس قسم کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو ایک واحد مرض پر قابو پانے کے لئے وقف ہے
دنیا بھر میں ایڈز کےموُذی مرض کے خلاف امریکہ کےکر دار پر ایک ادارئے میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ امریکی مالی امداد سے چلنے والے منصوبوں کی مدد سےلاکھوں انسانی جانیں بچائی گئی ہیں ۔

سنہ 2003 سے امریکی کانگریس نے ایڈز کی بیماری کے لئے صدر کے ہنگامی فنڈ کے لئے 38 ، ارب ڈالر دئے جا چُکے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ اِس قسم کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو ایک واحد مرض پر قابو پانے کے لئے وقف ہے۔

کانگریس نے اس کی منظوری پانچ سال کے لئے دی تھی اور سنہ 2008 میں ایک رپورٹ طلب کی تھی اور اب چار سال بعد ’نیشنل اکیڈمی آف سائینسز ‘ کے ’انسٹی چُیوٹ آف میڈیسن‘ نے 13 ملکوں کا دورہ کرکے اور تقریباً 400 افراد کے انٹرویو کرکے اس عظیم پروگرام پر 678 صفحوں پر مُشتمل ایک رپورٹ تیارکی ہے جِس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس منصوبے کی بدولت پوری دنیا میں ایک تغیُّر برپا ہوا ہے۔ اور ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف طویل اور دشوار جدّوجہد میں ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے 30 سال کے دوران لگ بھگ تین کروڑ انسانی جانیں اس مرض کی بھینٹ چڑھ چُکی ہیں، جب کہ اس منصوبے کی بدولت کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی جا چُکی ہیں یا اُن کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔

جب اس پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا تو اس موذی مرض پر قابو پانے کےبارے میں سنگین شکوک و شبہات تھے۔ لیکن، اس منصوبے کے ایک عشرے کے دوران یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بالکل ممکن ہے۔ اور اگلے 10 سال کے دوران جو چیلنج ہوگا وہ ہے ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ، جو 2011 ءمیں 25 لاکھ تھا، یعنی 7000 یومیہ،جو مستقبل میں اس سےبھی زیادہ سخت محنت کی متقاضی ہوگی۔

آج کل یورپ میں گائے کے گوشت کے ساتھ گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربُیون ‘کہتا ہے کہ ایک طرف یورپی حکومتیں گھوڑے کے گوشت کو گائے کا گوشت بنا کر بیچنے کے سکینڈل سے نمٹ رہی ہیں اور دوسری طرف دو جرمن سیاست دانوں نےتجویز کیاہے کہ ملاوٹ والا یہ گوشت غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔

بعض یورپی قومیں ڈبوں میں غِذا بند کرنے کی صنعت کے لئے زیادہ سخت قواعد نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دے رہی ہیں۔

اخبار کے مطابق، چیک ری پبلک کے فُوڈ انسپکٹروں کو پتہ چلا ہے کہ سویڈن سے درآمد ہونے والے کوفتوں میں گھوڑے کا گوشت استعمال کیا گیا ہے۔

رائٹرز خبر رساں ایجنسی کے مطابق، آئر لینڈ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں میں خوراک کی کوالِٹی کے ذمّہ دار عُہدہ داروں نے بھی اسی طرح گھوڑے کے گوشت کا سُراغ لگایا ہے۔ کیونکہ، اُن کے پاس اب ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے وُہ دوسرے جانور کے گوشت کے مہین ذرّوں تک کا سُراغ لگا سکتے ہیں۔


یہاں امریکہ میں این بی سی ٹیلی وژن نے محکمہٴ زراعت کے ناظمیں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس بات کا غالباً امکان نہیں ہے کہ گھوڑے کے گوشت کے ساتھ ملایا ہوا گائے کا گوشت امریکی دسترخوانوں تک پہنچ جائے، کیونکہ امریکہ میں گوشت فراہم کرنے والی ایسی کوئی فرم نہیں ہے جو گھوڑے ذبح کرتی ہو اور باہر کے ملکوں سے درآمد کئے گئے گوشت کا بڑا کڑا امتحان کیا جاتا ہے اور پھر اس پر لیبل چسپان کیا جاتا ہے۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان شمشی توانائی کا استعمال بڑھانے کے ایک منصوبے پر عمل درآمد کر رہا ہےجس کے تحت اس کی سورج سے حاصل کی ہوئی توانائی میں لگ بھگ آٹھ گنا اضافہ ہو جائے گا۔ اور مارچ 2017 تک اس کی شمسی توانائی کی پیداوار دس گِگاواٹ ہوجائےگی۔ اِس نصب العین کے حصول کے لئے وُہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے مساوی سرمایہ لگا رہا ہے۔

اخبار کے مطابق اس و قت ملک کی شمسی توانائی کی پیداوار ایک اعشاریہ تین گِگا بائٹ ہے جو اُس کی توانائی کی مجموعی پیداوار یعنی 211 گِگا بائٹ کا ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ اور نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت کے ایک عہدہ دار کے مطابق توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر بجلی پیدا کرنے کے وسائل بڑھائے جا رہے ہیں، شمسی توانائی خاص طور پر ایک اہم وسیلہ ہوگا، کیونکہ سورج کی توانائی سارا سال خاص طور پر راجستھان اور گُجرات میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔ شمسی توانائی کی توسیع کے عظیم تر منصوبے کے تحت سنہ 2010 اور سنہ 2020 کے درمیانی عرصے میں بِیس گِگا واٹ کی حد تک یہ پیداوار بڑھائی جائے گی۔