امریکی اخبارات سے: جوہری پروگرام پر پُرامن سمجھوتا

’اوبامہ انتظامیہ امریکی عوام کی خواہش کے مطابق، اس وقت تک جنگ نہیں کرنا چاہتی جب تک پُرامن طریقوں سے حل کرنے کے تمام طریقوں کو آزمایا نہیں جاتا اور وہ ناکام نہیں ہوتیں‘ٴٴاخباری رپورٹ
امیریکن جُیوِئش کانگریس اور اسرائیلی پالیسی فورم کے ایک سابق صدر رابرٹ کے لِفٹن، ایرانی جوہری پروگرام پر ایک پر امن سمجھوتہ طے کرنے کی کوششوں پر ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں رقمطراز ہیں کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ صدر اوبامہ نے ایران کے ساتھ جو عبوری سمجھوتہ کیا ہے، وُہ اسرائیل کے ساتھ دغا کرنے کے مترادف اور حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہ اصرار کہ اسرائیل کو صرف ایسا سمجھوتہ قابل قبول ہوگا جس کے تحت ایران کو ہر قسم کی افزودگی سے بالکل محروم کیا جائے گا ، حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔

اور، یہ بات ماننے کے قابل نہیں ہے کہ ایران اس قسم کا سمجھوتہ کرنے پر راضی ہوگا، چاہے آپ اُس کے خلاف کتنی بھی سنگین تعزیرات کیوں نہ لگائیں۔ چنانچہ، اگر نیتن یاہو کی تجویز مان لی جائے تو اس کا نتیجہ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ اور اوبامہ انتظامیہ امریکی عوام کی خواہش کے مطابق، اس وقت تک جنگ نہیں کرنا چاہتی جب تک پُرامن طریقوں سے حل کرنے کے تمام طریقوں کو آزمایا نہیں جاتا اور وہ ناکام نہیں ہوتیں۔


اسرائیل۔سعودی عرب اور اُن ملکوں کو جو ایران کے ساتھ اس عارضی سمجھوتے کے خلاف ہیں، لِفٹن کا مشورہ ہے کہ وُہ ایران پر گہری نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایران اس کی شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے۔

ایرانی سمجھوتے کا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا، اس پر اس تجزیہ نگار کی رائے ہے کہ ایران کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے بھی اُنہوں نے اور کئی دوسروں نے بھی یہ سوال اُٹھایا تھا کہ آیا وزیر اعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کے ساتھ دو مملکتوں کے قیام کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرنے میں مُخلص ہیں؟

اور وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات کے لئے جو مدت مقرر کی تھی اس کا ایک تہائی ختم ہونے کے بعد بھی یہ نہیں لگ رہا کہ فریقین نے کوئی پیش رفت کی ہے کہ حتمی حل کی کوئی امید پیدا ہو اور حقیقت میں اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے مذاکرات کے ذریعے حل کی کوئی امید نہیں ہے۔ اور غیر یقینی حالات میں رواں رُجحانات جاری رہیں گے جن میں اسرائیلی یہودی بستیوں کو توسیع دیتے رہیں گے اور فلسطینی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں گے۔


امریکی نائب صدر جو بائڈن نے ایشیا کا ایک دورہ شروع کیا ہے، ’فلاڈلفیا انکوائرر‘ اخبا کے بقول ان کے ایک ہفتے کے دورے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہےکہ ایشیا کے ساتھ رشتے استوار کرنے کی امریکی کوششوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ یہ برّاعظم بھی بغور دیکھ رہا ہے کہ چین کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پس منظر میں اوبامہ انتظامیہ اس خطّے میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانےمیں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اور جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں میں مسٹر بائڈن اس بات کا مظاہرہ کریں گے کہ اگرچہ امریکی انتظامیہ کی توجّہ مشرق وسطیٰ کے ہنگاموں اور بعض خانگی امور پر مرکوز رہی ہے، امریکہ کا بحرالکاہل کی ایک بڑی طاقت بنے رہنے کا عزم برقرار ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایشائی ممالک کے آپسی تنازعے ایک ایسے خطّے میں عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں، جو امریکی معیشت کے لئے اہم ہے، امریکی اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا ایک دوسرے سے بات کرنے کےروادار نہیں ہیں جب کہ چین نے کئی چھوٹے چھوٹے متنازعہ جزیروں کو اپنی دفاعی حدود میں شامل کرکے نہ صرف اپنے پڑوسیوں کو بلکہ امریکہ کو بھی چیلنج کیا ہے۔

چین نے پچھلے ہفتے اعلان کیا تھا ان حدود میں داخل ہونے والے طیّاروں کو پہلے چینی حکام کو اس کی اطلاع دینی پڑے گی، اور اس کی خلاف وزری کرنے والوں کےخلاف کاروائی کی جائے گی، جس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

پڑوسی ممالک اور امریکی فوج نے کہہ دیا ہے کہ وہ ان حدود کو نہیں مانتے، امریکہ نے ان علاقائی تنازعوں سے الگ رہنے کی کوشش کی ہے، لیکن اخبار نے کہا ہے کہ جاپان کے ساتھ معاہدوں کے تحت اُس پر ذمّہ داریاں آتی ہیں، اور چین جاپان اور دوسرے ملکوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے جارحانہ انداز کی وجہ سے کوئی واقعہ ہوا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔


افغان صدر حامد کرزئی امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے ایک سمجھوتے پر دستخط کرنے سے جو انکار کر رہے ہیں اُس پر ’یو ایس اے ٹوڈے‘ اخبار میں صدر اوبامہ اوبامہ کے قومی سلامتی کے ایک سابق مشیر ٹام ڈانی لان کا کہنا ہے کہ افغان صدر کا موقّف غیر ذمہ دارانہ ہے۔ مسٹر کرزئی کہتے ہیں کہ وہ اگلے سال صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، جس کے تحت سنہ 2014 میں فوجی اوپریشن ختم ہونے کے بعد فوجی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے لئے غیرملکی فوجیوں کی ایک مقرّرہ تعداد افغانستان میں موجود رہے گی۔ چناچہ، سابق امریکی مشیر کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ہماری ضرورت کے مطابق فوجوں کی موجودگی اور اُن کے تحفّظ سے متعلق یہ معاہدہ نہ ہوا، تو پھر 31 دسمبر سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکہ موجود نہیں رہ سکتا۔