امریکی اخبارات سے: ایران عراق گیس

فائل

اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں مدد ملی ہے، جب کہ واشنگٹن کو اِس پر تشویش ہے: اخباری رپورٹ
ایران عراق کو قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے، جِس کی ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگلے چار سال کے دوران مجموعی مالیت چودہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر بنتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں مدد ملی ہے، جب کہ واشنگٹن کو اِس پر تشویش ہے۔

اب ایران کی قدرتی گیس کی برآمدات دوگنی ہوجائیں گی اور گیس کے کنوؤں کی پیداوار میں، جو بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے رُکی پڑی تھی، توسیع ہونی شروع ہو جائے گی۔

ایک عراقی ترجمان کا کہنا ہے کہ اِس قدرتی گیس کی مدد سے دو بجلی گھر چلائے جائیں گے۔ بجلی کی قلّت کی وجہ سے پچھلے کئی ہفتوں کے دوران جنوبی عراق کی شیعہ آبادی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی آئی ہے۔ اِس علاقے میں گرمیوں میں درجہٴ حرارت 120 ڈگری فارن ہائٹ تک جا سکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ایسے میں جب تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے لگنے والی مغربی تعزیرات کے بعد، ایران کی برآمدی منڈیاں سُکڑ گئی ہیں، اُس کے لئے اِس سودے کی بدولت ایک اہم برآمدی منڈی کُھل جائے گی۔ اور بغداد میں اس سودے پر دستخط کے بعد اب ایران عراق کو روزانہ ایک کروڈ ڈالر مالیت کی گیس برآمد کرے گا۔ اِس طرح، ایران عراق کو تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی گیس ہر سال برآمد کرے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اقتصادی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں پچھلے سال 26 میں ارب ڈالر سے زیادہ کی گراوٹ آگئی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ اوبامہ انتظا میہ کو ایران کے ساتھ عراق کے بڑھتے ہوئے تعلّقات پر تشویش ہے، خاص طور سے اس پر کہ ایران شامی صدر بشار الاسد کو اسلحہ اور نقدی فراہم کرنے کے لئے عراقی فضائی حدود استعمال کرتا آیا ہے۔ اور امریکی عہدہداروں کے بار بار کے اصرار کے باوجود یہ ایرانی پروازیں برابر جاری ہیں۔

ایران ترکی کو بھی قدرتی گیس فراہم کرتا رہا ہے اور اخبار نے ترکی کی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ مغربی دباؤ کے باوجود، ایران سے گیس خریدتا رہے گا۔ عراق کو گیس کی فراہمی کے لئے ایران تُرکی ہی کے راستےپائپ لائن بچھا رہا ہے، جو 90 فیصد بن چُکی ہے اور دو ماہ میں مکمّل ہو جائے گی۔

’بالٹی مور سن‘ کے ایک کالم میں، اس امر پر بحث کی گئی ہے کہ جب براک اوبامہ اپنی دوسری چار سالہ مدت پوری کرنے کے بعد عُہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے تو اپنے پیچھے کیا ترکہ چھوڑ جائیں گے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وُہ واشنگٹن کو بدل کر رکھ دیں گے، ابھی تک بُش دور کی پالیسیوں اور صحت عامّہ کی پُرانی لڑائیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔


جب کوئی صدر دوسری مرتبہ منتخب ہو، تو اس سے توقع کی جاتی ہے کہ ووٹروں کی حمائت کے بعد وُہ ایسا لائحہ عمل اختیار کرےگا جسے تاریخ کی کتابوں میں قدر کی جگہ حاصل ہوگی۔ لیکن، جہاں تک صدر اوبامہ کی دوسری مدت صدارت کا تعلّق ہے تو اخبار کی نگاہ میں یہ اُن کی پہلی مدتِ صدارت کا اعادہ لگتی ہے۔ یعنی ایک تو اپنے پیش رو کی جو غلطیاں اُنہیں ترکے میں ملی تھیں، اُن کا ازالہ کرنا، اور دُوسرے پہلی مُدت میں کی گئی قانوں سازی کا دفاع کرنا۔

چنانچہ، اخبار کی نظر میں مسٹر اوبامہ اپنے پیچھے ایک مثبت ترکہ چھوڑنے کی کوشش میں مجبور ہیں کہ چار سال قبل اُنہیں جو بھاری اقتصادی کساد بازاری ورثے ملی تھی اس کا برابر مداوا کریں۔

اِس کے ساتھ ساتھ اُنہیں نہ صرف افغانستان سے فوجیں ہٹانے کے لئے تگ و دو کرنی ہوگی، بلکہ افغان جنگ اور عراق کی جنگ کے نتائج سے بُھگتنے کے علاوہ، شام میں فوجی مداخلت کے مطالبوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ ملک کے اندر اُنہوں نے صحت عامّہ کی نگہداشت کی اصلاح کا جو اہم قدم اُٹھایا تھا، کانگریس میں ری پبلکن ارکان اُس کی ڈٹ کر مخالفت کر رہے ہیں۔ اور اُن کا عزم ہے کہ اِسے کامیاب نہ ہونے دیں۔

اخبار کہتا ہے کہ ریپبلکن لیڈر مِچ مکانل کےبقول، اُن کی پارٹی کا نصب العین یہ تھا کہ اُن کی صدارت چار سال سے زیادہ نہ بڑھے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ جب اس میں انہیں ناکامی ہوئی تو ایسا لگ رہا ہے کہ وُہ اُن کی دوسری میعادِ صدارت کو ناکام بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ اوول آفس میں ان کا پانچواں سال ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل ارکان کو اُن سے شکائت ہے کہ وُہ مخالف جماعت کی طرف حد سے زیادہ مصالحانہ رویّہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اور جن ترقی پسند مقاصد کی اُن سے توقُع تھی اُن کے حصول میں وُہ سخت بُزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ بے چینی سیاہ فام امریکیوں تک پھیلی ہوئی ہے، جن کو شکائت ہے کہ وُہ اُن کے مفادات کے تحفُّظ کے لئے کافی جارحانہ راہ اختیار نہیں کر رہے۔


اخبار کہتا ہے کہ امریکہ میں اگلے سال کانگریس کے جو انتخابات ہونگے، اُن میں مسٹر اوبامہ کو ووٹروں سے براہ راست تو پالا نہیں پڑے گا۔ لیکن، یہ انتخابات اُن کی صدارت کے لئے ایک طرح کا ریفرنڈم ہونگے جِس سے یہ طے ہوجائے گا کہ آیا سینیٹ میں ڈیموکریٹوں کی اکثریت بنی رہے گی اور ایوان نمایندگاں میں ری پبلکن اکثریت کا خاتمہ ہوگا یا نہیں جو صدر کے لئے قانون سازی کے مسائیل کی اصل جڑ رہی ہے۔
اگر ایسا ہوا ، تو صدر اوبامہ کو ، جو اپنے پیرو کاروں کی زبردست امیدوں کے پس منظر میں سنہ2008 میں صدر منتخب ہوئے تھے، اپنے آخری دو برسوں میں انتظامی امور میں یکسر تبدیلی لانے کا موقع ملے گا۔


’واشنگٹن پوسٹ‘ نے چین کے نئے صدر ذی جِن پِنگ پر ایک ادرئے میں کہا ہےکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وُہ اپنے حریفوں اور حلیفوں دونوں پر بازی لے گئے ہیں اور اُنہوں نے حالیہ مہینوں میں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے اور پہلے جو امیدیں تھیں کہ وُہ سیاسی اصلاح پسند ثابت ہونگے، معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ وُہ ملک اور معاشرے دونوں پر کمیونسٹ پارٹی کازیادہ کنٹرول نافذ کرنا چاہتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی شعبے میں جدیدیت پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ نُسخہ جانا پہچانا ہے۔ لیکن ہے گمراہ کُن۔

اخبار کہتا ہے کہ چین کے حقوق انسانی کےسب سے ممتاز سر گرم کارکُن ذی ذیونگ کو گرفتار کیا گیا ہے، باوجودیکہ اُن کا موٴقف یہ ہے کہ شہری حقوق کے تحفّظ کی بنیاد آئین کے احترام اور قانون کی بالادستی میں ہے۔