’قتل و غارت کی روائت اب تباہ کُن حد تک پھیل چُکی ہے۔ سنہ 2013 میں 8000 سے زیادہ عراقی جان سے مارے گئے ہیں، جِن میں سے 952 سیکیورٹی افواج کے ارکان تھے‘
واشنگٹن —
عراق میں تشدّد تشویش ناک حد تک بڑھ جانے کے بعد، صدر اوبامہ نے اس کو روکنے کے لئے اُس ملک کے لئے مزید ہتھیار روانہ کرنے کا جو متوقّع فیصلہ کیا ہے اُس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ محض ہتھیار بھیجنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک تو سنّی اور دوسری اقلّیتوں کو دُشمن بنالیا گیا ہے۔ اور، جمہوری طور طریقوں کو کھوکھلا کر دیا گیا، جس کی ذمّہ داری خاص طور پر وزیر اعظم نوری المالکی پر آتی ہے۔
قتل و غارت کی روائت اب تباہ کُن حد تک پھیل چُکی ہے۔ سنہ 2013 میں آٹھ ہزار سے زیادہ عراقی جان سے مارے گئے ہیں، جن میں سے 952 سیکیورٹی افواج کے ارکان تھے۔
مجموعی طور پر یہ سنہ 2008 کے بعد مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اِس غیر معمولی کُشت و خوں کے لئے، القاعدہ کی علاقائی تنظیم کو ذمّہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جو عراق اور شام میں اسلامی مملکت کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ جو شمالی اور مغربی عراق میں ایک مضبوط طاقت مانی جاتی ہے، اور جو سنہ 2006 اور2007 میں ملک کو خانہ جنگی کے دہانے تک لے آئی تھی۔ اس کو بالآخر عراق کے سنّی قبائیلی جتھوں اور امریکی فوجوں کے ہاتھوں بھاری شکست دی گئی تھی۔ لیکن، سنہ 2011 میں امریکی فوج کے انخلاٴ کے بعد اس جتھے نے عراقی سیکیورٹی فوجوں کے مقابلے میں دوبارہ تقویت حاصل کرلی ہے۔
یہ فوجیں عراقی شہری آبادی کو پُورے طور پر تحفظ فراہم نہیں کر سکتیں، اور اس میں شام اور اس علاقے کے کئی غیر ملکی لشکری شامل ہوگئے ہیں۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ جتھہ اب سیکیورٹی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ نومبر کے مہینے میں مسٹر مالکی نے وہائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے امداد طلب کی تھی۔ یہ سنہ 2011 کے بعد ان کے موقف میں یکسر تبدیلی کے مترادف تھا۔ جب تربیت اور انٹلی جنس کے لئے امریکی فوجوں کی ایک چھوٹی سی فورس عراق میں موجود رکھنے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ پچھلے ہفتے ہوا سے زمین پر داغے جانے والے 75ہیل فائیر مزائیل عراق کو فراہم کئے گئے ہیں، جن سے عسکریت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
اور نشانہ بنانے میں سی آئی اے امداد فراہم کرے گی، جب کہ مارچ میں عراق کو دیکھ بھال کرنے والے دس ڈرون طیارے بھیجے جا رہے ہیں۔
اوبامہ انتظامیہ کا مزید 48 ڈرون طیارے اور آرڈر کئے ہوئے ایف 16 طیاروں کی پہلی کھیپ بھیجنے کا بھی منصوبہ ہے، اور کانگریس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ عراق کو اپاچی ہیلی کاپٹر گن شپ بھی دئے جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کا عراق کے استحکام میں سٹرٹیجک مفاد ہے۔ لیکن، اگر مسٹر مالکی اور دوسرے عراقی لیڈر آپس میں لڑتے بِھڑتے رہے، تو ان خوفناک ہتھیاروں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ مسٹر مالکی اور دوسرے عراقی عہدہ داروں کو اب اندازہ ہوگیا ہے کہ محض سیکیورٹی پر زور دینے سے استحکام نہیں آئے گا۔ اور ایسی علامات ہیں کہ مسٹر مالکی اور اُن کی حکومت سنیّوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور کردوں کے ساتھ تیل سے متعلق تنازعے کو حل کرنے پر تیار ہیں۔
اور، اخبار نے اوبامہ انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوجی امداد دینے کے ساتھ ساتھ عراقی لیڈروں پر زور دے کہ اپریل میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے اور سنّیوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
معروف کالم نگار، کیتھلین ہارکر نئے سال کے موقع پر امریکی عوام کی امنگوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکی رجائیت کی کوئی حد نہیں۔ محنت شاقہ اور آزادی کے ساتھ عوام کی وابستگی وُہ اجزاء ہیں، جن سے امریکی خواب عبارت ہے۔
اور اس ملک نے اب تک جو کارنامے سرانجام دئے ہیں، اُن میں جراٴت کا عُنصر اہم ہے جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملک کے بانیوں نےایک بادشاہ کو للکارا، جنگ لڑی، آزادی کے لئے جان کی قربانی دی اور کُچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قوّت بازو سے اس ملک کی داغ بیل ڈالی۔ اور اب جب ایک نیا سال شروع ہو گیا ہے، ہمیں نہ بھولنا چاہئے امریکہ کی طاقت اور خوشحالی اُس کی نیکی کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ آزادی بخشش کا نتیجہ نہیں، بلکہ اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور، اس کے تحفّظ کے لئے ہمہ وقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ میں حجاب کے بارے میں ایک قاری کا خط چھپا ہے۔ اس میں اس نے ایک نوجوان مسلمان خاتون کے اس مضمون پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جس میں اس نے امریکہ میں حجاب پہننے کے ذاتی تجربے کے بارے میں بتایا ہے۔ اس پر قاری کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے اس حق کی حامی ہے کہ وُہ ایسی پوشاک یا زیور پہن سکے، جس سے پتہ چلے کہ اس کا کس مذہب سے تعلّق ہے۔
قاری کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت، وفاقی اور ریاستی حکومتو ں پر اس آزادی کو تحفظ دینا لازم ہے، جو دونوں پبلک میں اور کام کرنے کی جگہ میں میسّر ہونی چاہئے۔
قتل و غارت کی روائت اب تباہ کُن حد تک پھیل چُکی ہے۔ سنہ 2013 میں آٹھ ہزار سے زیادہ عراقی جان سے مارے گئے ہیں، جن میں سے 952 سیکیورٹی افواج کے ارکان تھے۔
مجموعی طور پر یہ سنہ 2008 کے بعد مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اِس غیر معمولی کُشت و خوں کے لئے، القاعدہ کی علاقائی تنظیم کو ذمّہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جو عراق اور شام میں اسلامی مملکت کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ جو شمالی اور مغربی عراق میں ایک مضبوط طاقت مانی جاتی ہے، اور جو سنہ 2006 اور2007 میں ملک کو خانہ جنگی کے دہانے تک لے آئی تھی۔ اس کو بالآخر عراق کے سنّی قبائیلی جتھوں اور امریکی فوجوں کے ہاتھوں بھاری شکست دی گئی تھی۔ لیکن، سنہ 2011 میں امریکی فوج کے انخلاٴ کے بعد اس جتھے نے عراقی سیکیورٹی فوجوں کے مقابلے میں دوبارہ تقویت حاصل کرلی ہے۔
یہ فوجیں عراقی شہری آبادی کو پُورے طور پر تحفظ فراہم نہیں کر سکتیں، اور اس میں شام اور اس علاقے کے کئی غیر ملکی لشکری شامل ہوگئے ہیں۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ جتھہ اب سیکیورٹی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ نومبر کے مہینے میں مسٹر مالکی نے وہائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے امداد طلب کی تھی۔ یہ سنہ 2011 کے بعد ان کے موقف میں یکسر تبدیلی کے مترادف تھا۔ جب تربیت اور انٹلی جنس کے لئے امریکی فوجوں کی ایک چھوٹی سی فورس عراق میں موجود رکھنے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ پچھلے ہفتے ہوا سے زمین پر داغے جانے والے 75ہیل فائیر مزائیل عراق کو فراہم کئے گئے ہیں، جن سے عسکریت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
اور نشانہ بنانے میں سی آئی اے امداد فراہم کرے گی، جب کہ مارچ میں عراق کو دیکھ بھال کرنے والے دس ڈرون طیارے بھیجے جا رہے ہیں۔
اوبامہ انتظامیہ کا مزید 48 ڈرون طیارے اور آرڈر کئے ہوئے ایف 16 طیاروں کی پہلی کھیپ بھیجنے کا بھی منصوبہ ہے، اور کانگریس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ عراق کو اپاچی ہیلی کاپٹر گن شپ بھی دئے جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کا عراق کے استحکام میں سٹرٹیجک مفاد ہے۔ لیکن، اگر مسٹر مالکی اور دوسرے عراقی لیڈر آپس میں لڑتے بِھڑتے رہے، تو ان خوفناک ہتھیاروں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ مسٹر مالکی اور دوسرے عراقی عہدہ داروں کو اب اندازہ ہوگیا ہے کہ محض سیکیورٹی پر زور دینے سے استحکام نہیں آئے گا۔ اور ایسی علامات ہیں کہ مسٹر مالکی اور اُن کی حکومت سنیّوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور کردوں کے ساتھ تیل سے متعلق تنازعے کو حل کرنے پر تیار ہیں۔
اور، اخبار نے اوبامہ انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوجی امداد دینے کے ساتھ ساتھ عراقی لیڈروں پر زور دے کہ اپریل میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے اور سنّیوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
معروف کالم نگار، کیتھلین ہارکر نئے سال کے موقع پر امریکی عوام کی امنگوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکی رجائیت کی کوئی حد نہیں۔ محنت شاقہ اور آزادی کے ساتھ عوام کی وابستگی وُہ اجزاء ہیں، جن سے امریکی خواب عبارت ہے۔
اور اس ملک نے اب تک جو کارنامے سرانجام دئے ہیں، اُن میں جراٴت کا عُنصر اہم ہے جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملک کے بانیوں نےایک بادشاہ کو للکارا، جنگ لڑی، آزادی کے لئے جان کی قربانی دی اور کُچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قوّت بازو سے اس ملک کی داغ بیل ڈالی۔ اور اب جب ایک نیا سال شروع ہو گیا ہے، ہمیں نہ بھولنا چاہئے امریکہ کی طاقت اور خوشحالی اُس کی نیکی کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ آزادی بخشش کا نتیجہ نہیں، بلکہ اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور، اس کے تحفّظ کے لئے ہمہ وقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ میں حجاب کے بارے میں ایک قاری کا خط چھپا ہے۔ اس میں اس نے ایک نوجوان مسلمان خاتون کے اس مضمون پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جس میں اس نے امریکہ میں حجاب پہننے کے ذاتی تجربے کے بارے میں بتایا ہے۔ اس پر قاری کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے اس حق کی حامی ہے کہ وُہ ایسی پوشاک یا زیور پہن سکے، جس سے پتہ چلے کہ اس کا کس مذہب سے تعلّق ہے۔
قاری کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت، وفاقی اور ریاستی حکومتو ں پر اس آزادی کو تحفظ دینا لازم ہے، جو دونوں پبلک میں اور کام کرنے کی جگہ میں میسّر ہونی چاہئے۔