’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، لیکن لاشوں کو مسخ کرنے کے اس دعوے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کےباہمی تعلقات غیر مستحکم ہو سکتے ہیں
کشمیر کی ’لائن آف کنٹرول‘ پرنسبتاً طویل خموشی کےبعد ہندوستان نےپاکستان کی فوج پر اس لائن کو عبور کرکے ایک جھڑپ میں دو ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک کرنے، اُن کی لاشیں مسخ کرنے کا جو الزام لگایا ہے، اس پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے ایک ہندوستانی فوجی ترجمان کےحوالے سے بتایا ہے کہ دونوں فوجیوں کی لاشیں جب ملیں تو اُن پر تشدد کیا گیا تھا اور ایک کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
اخبار کے مطابق جب یہ پُوچھا گیا کہ اُنہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ پاکستانی فوجیوں کی کارستانی تھی، تو جواب میں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی فوجی یونٹ کو لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ البتہ، اس نے تسلیم کیا کہ فوج میں سے کسی نے بھی انہیں ہلاک ہوتے نہیں دیکھا تھا اور یہ کہ لاشیں بعد میں برآمد کی گئی تھیں۔
رپورٹ میں ایک پاکستانی فوجی ترجمان کےحوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے سرحد عبور نہیں کی تھی اور ناہی فائرنگ کا کوئی ایسا واقعہ ہوا تھا۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن نے بھی اس تردید کو دُہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی فوجی مبصّرین سے اس کی تحقیقات کرانے کے لئے تیا ر ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن لاشوں کو مسخ کرنے کے اس دعوے کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو ملکوں کے باہمی تعلقات ایسے میں غیر مستحکم ہو سکتے ہیں، جب دونوں امن مذاکرات کے ذریعے اُنہیں بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ دونوں ملکوں کا کشمیر کی پوری ریاست پر دعویٰ ہے اور وہ لائن آف کنٹرول کو محض جنگ بندی کی لائن سمجھتے ہیں۔ لیکن، جنگ بندی کے باوجود سرحد کے آرپار وقتاً فوقتاً ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کا کہناہے کہ سنہ 2012 ءکے دوران ان جھڑپوں میں اُس کے آٹھ فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ پاکستان کی طرف اس طرح ہلاک ہونے والو ں کی تعداد فوری طور سے دستیاب نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان سے مالی امداد اور فوجی تربیت پانے والے عسکریت پسندوں نے کشمیر کے بھارتی علاقے میں سنہ 1990 کی دہائی کے دوران اور اس کے بعد بغاوت کی، اور بھارت نے پانچ لاکھ سیکیورٹی افوا ج اس علاقے میں بھیجیں، جس کے بعد لڑائی میں ہزارہا شہری ہلاک ہوئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں تشدّد کے واقعات میں حالیہ برسوں میں زبردست کمی آئی ہے، جب امریکہ کی طرف سے پُورا دباؤٴ ڈالا گیا کہ عسکریت پسندوں کی مالی امداد بند کی جائے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اُس کے علاقے میں ابھی بھی چند ہزار عسکریت پسند بچے ہوئے ہیں جن کی وقتاً فوقتاً سیکیورٹی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کشمیر کے قضیئے کا حل ڈُھونڈنا دونوں ملکوں کے درمیان پائدار امن کے تعلّقات قائم کرنے کے لئے اشد ضروری ہے۔ لیکن، سنہ 2008 میں یہ تعلقات نہائت خراب ہو گئے جب پاکستانی جنگجؤوں نےممبئی پر تین روزہ حملے کے دوران160 افراد کو ہلاک کر دیا۔ لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے اُس کے بعد سے دونوں ملکوں نے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے لئے اُنہوں نے کم متنازعہ امور پر توجّہ دی ہے، مثلاً باہمی تجارت کو بڑھانا یا ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا دینے کے قواعد کو آسان بنانا۔
افغان صدر حامد کرزئی کے دورہٴ واشنگٹن پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے۔ کہ جمعے کو جب اُن کی صدر اوبامہ کے ساتھ بات چیت ہوگی، تو زیر بحث موضوع یہ ہوگا کہ سنہ 2014 کے بعد افغانستان کا کیا بنے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں سمجھتا کہ امریکہ جب اس ملک سے اپنی بیشتر فوجیں واپس نکال لے گا تو طالبان پھر برسر اقتدار آجائیں گےاور بعض لوگوں کے خیال میں کلیدی بات یہ ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے مابین ایسی شراکت داری کو فروغ دینا، جو دیر پا ثابت ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ اور افغان بنیادی ڈھانچے اور ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل سیکیورٹی فوج کو تیار کرنے کے بعد کابُل سے ایک ملا جلا تاثُر ملتا ہے۔
کئی لوگو ں کو تشویش ہے کہ سنہ 2014 کو جب 66 ہزار امریکی فوجیوں میں سے بیشتر افغانستان سے جا چکے ہونگے، تو صورت حال کیا ہوگی، جب کہ دوسروں کو یقین ہے کہ افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے تیار ہے۔ بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ملک کہیں 1990 ءکےدور کی طرف نہ مراجعت کرے، جب ملک کے بیشتر حصے پر طالبان قابض تھے۔
اس کے برعکس، بعض کو یہ فکر ہے کہ کہیں مرکزی حکومت ناکام نہ ہو اور جنگی سرداروں کا دور اور خانہ جنگی واپس نہ آئے۔
لیکن، اخبار کے بقول، بہت سے تجزیہ کار اس حقیقت کی طرف توجّہ دلاتے ہیں کہ ملک سنہ 2001 کےدور سے بُہت دور نکل آیا ہے۔ اس لئے وہ دوبارہ تشدّد اور لاقانونیت کی طرف واپس نہیں جاسکتا۔ اور 1990 کی دہائی کے دوران کابل کے لئے جو جنگ لڑی گئی تھی اُس کا مفاد اسی میں ہے کہ دارالحکومت میں امن برقرار رہے
اے بی سی ٹی وی کے مطابق، وینی زویلا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہیوگو شاویز اپنی صدارت کی چوتھی میعاد کے لئے حلف نہیں اُٹھا سکیں گے۔ حلف اُٹھانے کی یہ تقریب جمعرات کو نیشنل اسمبلی میں منعقد ہونا تھی، لیکن اب ایک سرکاری بیان میں اسمبلی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ مسٹر شاویز کو سرطان کے آپریشن کے بعد مزید علاج کے لئے کیوبا میں رہنا پڑ رہا ہے جس وجہ سے وُہ وینی زویلا واپس نہیں آ سکتے۔ چنانچہ، اب وُہ ایک تاریخ کو سُپریم کورٹ میں حلف لیں گے، جیسا کہ ملک کے آئین میں کہا گیا ہے۔
اخبار کے مطابق جب یہ پُوچھا گیا کہ اُنہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ پاکستانی فوجیوں کی کارستانی تھی، تو جواب میں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی فوجی یونٹ کو لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ البتہ، اس نے تسلیم کیا کہ فوج میں سے کسی نے بھی انہیں ہلاک ہوتے نہیں دیکھا تھا اور یہ کہ لاشیں بعد میں برآمد کی گئی تھیں۔
رپورٹ میں ایک پاکستانی فوجی ترجمان کےحوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے سرحد عبور نہیں کی تھی اور ناہی فائرنگ کا کوئی ایسا واقعہ ہوا تھا۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن نے بھی اس تردید کو دُہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی فوجی مبصّرین سے اس کی تحقیقات کرانے کے لئے تیا ر ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن لاشوں کو مسخ کرنے کے اس دعوے کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو ملکوں کے باہمی تعلقات ایسے میں غیر مستحکم ہو سکتے ہیں، جب دونوں امن مذاکرات کے ذریعے اُنہیں بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ دونوں ملکوں کا کشمیر کی پوری ریاست پر دعویٰ ہے اور وہ لائن آف کنٹرول کو محض جنگ بندی کی لائن سمجھتے ہیں۔ لیکن، جنگ بندی کے باوجود سرحد کے آرپار وقتاً فوقتاً ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کا کہناہے کہ سنہ 2012 ءکے دوران ان جھڑپوں میں اُس کے آٹھ فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ پاکستان کی طرف اس طرح ہلاک ہونے والو ں کی تعداد فوری طور سے دستیاب نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان سے مالی امداد اور فوجی تربیت پانے والے عسکریت پسندوں نے کشمیر کے بھارتی علاقے میں سنہ 1990 کی دہائی کے دوران اور اس کے بعد بغاوت کی، اور بھارت نے پانچ لاکھ سیکیورٹی افوا ج اس علاقے میں بھیجیں، جس کے بعد لڑائی میں ہزارہا شہری ہلاک ہوئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں تشدّد کے واقعات میں حالیہ برسوں میں زبردست کمی آئی ہے، جب امریکہ کی طرف سے پُورا دباؤٴ ڈالا گیا کہ عسکریت پسندوں کی مالی امداد بند کی جائے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اُس کے علاقے میں ابھی بھی چند ہزار عسکریت پسند بچے ہوئے ہیں جن کی وقتاً فوقتاً سیکیورٹی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کشمیر کے قضیئے کا حل ڈُھونڈنا دونوں ملکوں کے درمیان پائدار امن کے تعلّقات قائم کرنے کے لئے اشد ضروری ہے۔ لیکن، سنہ 2008 میں یہ تعلقات نہائت خراب ہو گئے جب پاکستانی جنگجؤوں نےممبئی پر تین روزہ حملے کے دوران160 افراد کو ہلاک کر دیا۔ لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے اُس کے بعد سے دونوں ملکوں نے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے لئے اُنہوں نے کم متنازعہ امور پر توجّہ دی ہے، مثلاً باہمی تجارت کو بڑھانا یا ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا دینے کے قواعد کو آسان بنانا۔
افغان صدر حامد کرزئی کے دورہٴ واشنگٹن پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے۔ کہ جمعے کو جب اُن کی صدر اوبامہ کے ساتھ بات چیت ہوگی، تو زیر بحث موضوع یہ ہوگا کہ سنہ 2014 کے بعد افغانستان کا کیا بنے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں سمجھتا کہ امریکہ جب اس ملک سے اپنی بیشتر فوجیں واپس نکال لے گا تو طالبان پھر برسر اقتدار آجائیں گےاور بعض لوگوں کے خیال میں کلیدی بات یہ ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے مابین ایسی شراکت داری کو فروغ دینا، جو دیر پا ثابت ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ اور افغان بنیادی ڈھانچے اور ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل سیکیورٹی فوج کو تیار کرنے کے بعد کابُل سے ایک ملا جلا تاثُر ملتا ہے۔
کئی لوگو ں کو تشویش ہے کہ سنہ 2014 کو جب 66 ہزار امریکی فوجیوں میں سے بیشتر افغانستان سے جا چکے ہونگے، تو صورت حال کیا ہوگی، جب کہ دوسروں کو یقین ہے کہ افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے تیار ہے۔ بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ملک کہیں 1990 ءکےدور کی طرف نہ مراجعت کرے، جب ملک کے بیشتر حصے پر طالبان قابض تھے۔
اس کے برعکس، بعض کو یہ فکر ہے کہ کہیں مرکزی حکومت ناکام نہ ہو اور جنگی سرداروں کا دور اور خانہ جنگی واپس نہ آئے۔
لیکن، اخبار کے بقول، بہت سے تجزیہ کار اس حقیقت کی طرف توجّہ دلاتے ہیں کہ ملک سنہ 2001 کےدور سے بُہت دور نکل آیا ہے۔ اس لئے وہ دوبارہ تشدّد اور لاقانونیت کی طرف واپس نہیں جاسکتا۔ اور 1990 کی دہائی کے دوران کابل کے لئے جو جنگ لڑی گئی تھی اُس کا مفاد اسی میں ہے کہ دارالحکومت میں امن برقرار رہے
اے بی سی ٹی وی کے مطابق، وینی زویلا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہیوگو شاویز اپنی صدارت کی چوتھی میعاد کے لئے حلف نہیں اُٹھا سکیں گے۔ حلف اُٹھانے کی یہ تقریب جمعرات کو نیشنل اسمبلی میں منعقد ہونا تھی، لیکن اب ایک سرکاری بیان میں اسمبلی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ مسٹر شاویز کو سرطان کے آپریشن کے بعد مزید علاج کے لئے کیوبا میں رہنا پڑ رہا ہے جس وجہ سے وُہ وینی زویلا واپس نہیں آ سکتے۔ چنانچہ، اب وُہ ایک تاریخ کو سُپریم کورٹ میں حلف لیں گے، جیسا کہ ملک کے آئین میں کہا گیا ہے۔