امریکی اخبارات سے: ملالہ اور امن کا عالمی انعام

نوبیل کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے، تجزیہ کار کرسچین امان پور نے کہا کہ ملالہ نے اپنی جان کی بازی لگائی، جب کہ کیمیائی ہتھیاروں سے نمٹنے والے ادارے کو ابھی کچھ کرکے دکھانا ہے
پچھلے ہفتے امن کے نوبیل انعٕام کا جب اعلان ہونے والا تھا، تو امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اکثر لوگوں کا یقین تھا کہ اس انعام کی سب سے زیادہ مستحق ملالہ یوسف زئی ہے۔ لیکن، اُنہیں سخت مایوسی ہوئی جب یہ انعام کیمیائی ہتھیاروں کو ممنوع قرار دینے سے متعلق ادارے کو دیا گیا۔

متعدد امریکی ٹی وی نیٹ ورکس نے ملالا کے بارے میں پروگرام نشر کئے اور اس کے انٹرویو بھی، جن میں معروف صحافی کرسچین امان پور شامل ہیں۔

اُنہوں نے نوبیل کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ نے اپنی جان کی بازی لگائی ہے جب کہ کیمیائی ہتھیاروں سے نمٹنے والے ادارے کو ابھی کچھ کرکے دکھانا ہے۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد بھی اپنے آپ کو اس بنا پر نوبیل انعام کا حقدار سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر سے دست بردار ہو رہے ہیں۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ ملالہ کے بارے میں ایک مضمون میں، جیسیکا رنالڈی لکھتی ہیں کہ اس 16 سال ہونہار پاکستانی لڑکی نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نعرہ بلند کرکے طالبان دُشمنی مول لی۔

اسے امن کا نوبیل انعام تو نہ ملا، لیکن یورپی یونین نے اُسے حقوق انسانی کا سب سے بڑا انعام دیا ہے۔ ایک لڑکی کے لئے جو پچھلے سال قاتلانہ حملے میں بال بال بچی تھی، یہ ایک محیر العقول کارنامہ ہے۔


مقبول امریکی ٹی وی پروگرام ’ڈیلی شو‘ کے میزبان جان سٹیوارٹ نے بھی ملالہ کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا، جس دوران ملالہ نےبتایا کہ وہ کس طرح امن، مکالمے اور تعلیم کی مدد سے طالبان کے خلاف ڈٹ گئی۔

ادھر ’شکاگو ٹربیون‘ کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ نوبیل امن انعام ملالہ کو ملنا چاہئے تھا۔

مضمون نگار گیری کیماران کو شکائت ہے کہ نوبیل کمیٹی نے پیشگی انعام دینے کی عادت بنالی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں سے نمٹنے والے ادارے کا حق اگلے سال کہیں بہتر ہوتا، بشرطیکہ اس کے انسپکٹر بشارالاسد کے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگاتے۔ جس صورت میں، یہ ادارہ یقینی طور پر نوبیل امن کا حق دار تصور کیا جاتا۔

لیکن، مضمون نگار کے خیال میں، رواں سال، یہ ادارہ ملالہ اور اس کے خاندان کی بہادری کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جس نے دنیا کی آدھی آبادی، یعنی خواتین کی خاطر اتنا غیر معمولی خطرہ مول لیا۔ ملالہ کا یہ مشن کیمیائی ہتھیاروں کو نیست و نابود کرنے کے مقابلے میں کسی طور سے کم اہم نہیں۔


جینیوا میں چھ عالمی طاقتوں کے سامنے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ملک کے جوہری پروگرام سے پیدا شدہ تنازعے کو ختم کرنے کے بارے میں جو خاکہ پیش کیا ہے، اس پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اس میں اس پروگرام کے بار ےمیں عالمی تشویش کو رفع کرنے کے لئے ایک نئی راہ اختیار کی گئی ہے، جس کا امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو عرصے سے انتظار تھا۔

ایران نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یورنیم کی افزودگی کرنے والی تنصیبات سمیت پروگرام کے تمام حصوں تک اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو رسائی دے گا۔

جینیوا کے مذاکرات سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئی ہیں، اور بعض مبصرین کی پیش گوئی ہے کہ اس سے اس 20 سال پرانے قضیے کو حل کرنے کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔


’کرسچن سائینس مانٹر‘ میں افغان طالبان کے خلوت پسند لیڈر، مُلّا عمر کا ایک بیان شایع ہوا ہے، جس میں اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو شدّت کے ساتھ اپنی جنگ جاری رکھنے اور افغانستان میں اگلے سال کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی ہے۔

ملا عمر نے عہد کیا ہے کہ اگر کابل حکومت نے امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کئے تو اُن کے پیروکار حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔
ملا عمر کا یہ پیغام عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ذرائع ابلاغ کو ایک ای میل میں بھیجا گیا ہے۔