ملالہ یوسف زئی اُس وقت بین الاقوامی میڈیا میں سرخیوں کا موضوع بن گئیں جب اُنھوں نے تعلیم کو عام کرنے، اور خاص طور پر لڑکیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے اور اِس سلسلے میں اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے جراٴت کے ساتھ آواز بلند کی۔
اِس لیے، اُنھوں نے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالا اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔
تقریباً ایک سال قبل، پاکستان کے ایک سیاحتی مقام، سوات میں طالبان نے ایک اسکول بس میں اُن کو گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا، جس کے بعد، پاکستان میں ابتدائی علاج کے بعد اُنھیں برطانیہ منتقل کیا گیا، جہاں سرجری اور طبی دیکھ بھال کے بعد، اُنھیں دوسری زندگی ملی۔
اُس کے بعد، وہ مستقل بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں۔
اُن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور مخلتلف پاکستانی شاعروں نے اُن کی جراٴت پر اُنھیں منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔
مشہور شاعر، علی شان اُنھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، کہتے ہیں:
علم کی شمع جلا کر دہشتوں کے شہر میں
پوری دنیا میں محبت کا حوالہ بن گئی
سر برہنہ ملت اسلام کے سر کے لیے
تیری ننھی ذاتِ اقدس ہی دوشالہ بن گئی
پربتوں سے خون کے دھبوں کو دھونے کے لیے
تو وطن کی آبرو کا ایک آلہ بن گئی
پھول سی نازک، خواہر خونیوں کے سامنے
اپنی دھرتی کے لیے شعلہ جوالہ بن گئی
یہ ملالہ کی شجاعت کے عوض ممکن ہوا
شانِ دہشتگردی اک مکڑی کا جالہ بن گئی
ظلمتوں سے پھوٹ کے پر نور ہالہ بن گئی
چیر کر تاریکی شب اجالہ بن گئی
پاکستان کی مشہور شاعرہ، کشور ناہید نے جہاں اپنی شاعری میں ملالہ یوسف زئی کو خراجِ تحسین پیش کیا، تو ساتھ ہی، طالبان کی دہشت گردی کا ذکر بھی کیا۔ اُن کی نظم کے منتخب اشعار:
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ جو علم سے بھی گریز پا
کریں ذکر رب کریم کا
وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
سحر میں اُسی کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
پاکستان اور دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ کے جذبے اور نصب العین اور اُن کی بہادری کے لیے، لوگ اُنھیں برابر خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
خیبر پختون خواہ کے ایک مقامی شاعر، نیر آفاق ملالہ کی بہادری اور جراٴت کا تذکرہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
چلو کہ دشتِ جہالت کو کہہ دیں خیرباد
خدا نے ہم پہ اتاری فرات کی بیٹی
کتاب، اُس کا ہے آنچل۔ تو روشنائی، حنا
قلم سے اُس کو ہے نسبت۔ دوات کی بیٹی
دمک رہی ہے ستاروں سی، کہکشاؤں میں
ہے کس چراغ کی لَو، کائنات کی بیٹی
حریمِ قدس۔ جہاں بھر کی آبرو ہے وہ
نہ اس کو کہئیے فقط اک سوات کی بیٹی
وہ دیکھ لیں کہ طلوع ہو رہی ہے کوئی کرن
جو لوگ طنز سے کہتے تھے۔ رات کی بیٹی
جہل کے مدِ مقابل اگر ملالہ رہے
جہاں جہاں پہ ہے ظلمت، وہاں اجالہ رہے
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اِس لیے، اُنھوں نے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالا اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔
تقریباً ایک سال قبل، پاکستان کے ایک سیاحتی مقام، سوات میں طالبان نے ایک اسکول بس میں اُن کو گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا، جس کے بعد، پاکستان میں ابتدائی علاج کے بعد اُنھیں برطانیہ منتقل کیا گیا، جہاں سرجری اور طبی دیکھ بھال کے بعد، اُنھیں دوسری زندگی ملی۔
اُس کے بعد، وہ مستقل بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں۔
اُن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور مخلتلف پاکستانی شاعروں نے اُن کی جراٴت پر اُنھیں منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔
مشہور شاعر، علی شان اُنھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، کہتے ہیں:
علم کی شمع جلا کر دہشتوں کے شہر میں
پوری دنیا میں محبت کا حوالہ بن گئی
سر برہنہ ملت اسلام کے سر کے لیے
تیری ننھی ذاتِ اقدس ہی دوشالہ بن گئی
پربتوں سے خون کے دھبوں کو دھونے کے لیے
تو وطن کی آبرو کا ایک آلہ بن گئی
پھول سی نازک، خواہر خونیوں کے سامنے
اپنی دھرتی کے لیے شعلہ جوالہ بن گئی
یہ ملالہ کی شجاعت کے عوض ممکن ہوا
شانِ دہشتگردی اک مکڑی کا جالہ بن گئی
ظلمتوں سے پھوٹ کے پر نور ہالہ بن گئی
چیر کر تاریکی شب اجالہ بن گئی
پاکستان کی مشہور شاعرہ، کشور ناہید نے جہاں اپنی شاعری میں ملالہ یوسف زئی کو خراجِ تحسین پیش کیا، تو ساتھ ہی، طالبان کی دہشت گردی کا ذکر بھی کیا۔ اُن کی نظم کے منتخب اشعار:
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ جو علم سے بھی گریز پا
کریں ذکر رب کریم کا
وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
سحر میں اُسی کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
پاکستان اور دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ کے جذبے اور نصب العین اور اُن کی بہادری کے لیے، لوگ اُنھیں برابر خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
خیبر پختون خواہ کے ایک مقامی شاعر، نیر آفاق ملالہ کی بہادری اور جراٴت کا تذکرہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
چلو کہ دشتِ جہالت کو کہہ دیں خیرباد
خدا نے ہم پہ اتاری فرات کی بیٹی
کتاب، اُس کا ہے آنچل۔ تو روشنائی، حنا
قلم سے اُس کو ہے نسبت۔ دوات کی بیٹی
دمک رہی ہے ستاروں سی، کہکشاؤں میں
ہے کس چراغ کی لَو، کائنات کی بیٹی
حریمِ قدس۔ جہاں بھر کی آبرو ہے وہ
نہ اس کو کہئیے فقط اک سوات کی بیٹی
وہ دیکھ لیں کہ طلوع ہو رہی ہے کوئی کرن
جو لوگ طنز سے کہتے تھے۔ رات کی بیٹی
جہل کے مدِ مقابل اگر ملالہ رہے
جہاں جہاں پہ ہے ظلمت، وہاں اجالہ رہے
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے: