مشرق وسطیٰ کےدورے میں وزیر خارجہ کلنٹن کا زور اِس پر ہوگا کہ سفارت کاری کی بدولت ایک ایسا پُرامن حل تلاش کیا جائے جِس میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن و سلامتی میں رہنا ممکن ہو: وال سٹریٹ جرنل
واشنگٹن —
جیسا کہ خبروںمیں آپ نے سنا ہوگا وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد کو فرو کرنے کی کوشش میں یروشلم، رملہ اور قاہرہ کے دورے پر جارہی ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل ‘کہتا ہے کہ یہ دورہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین جاری لڑائی کے پس منظر میں ہو رہا ہے جس میں منگل کے روز اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں اسلامی نیشنل بینک کے ہیڈکوارٹرز کو تباہ کردیا۔ یہ بینک غزہ کی حکمراں جماعت حماس نے اُس کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات سے بچنے کے لیے قائم کیا تھا۔ اسی بیچ اسرائیلی پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے جس نے ایک خنجر لہراتے ہوئے تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے ایک گارڈ پر حملہ کردیا تھا۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تشدد کا یہ نیا مرحلہ پچھلے ہفتے شروع ہوا تھا جب غزہ کی پٹی سے بغیر اشتعال کے اسرائیل پر راکیٹ برسنا شروع ہوئے تھے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے جوابی کارروائی شروع کی تھی اور حماس کے زیر زمین راکیٹ داغنے کے مقامات اور ہتھیاروں کے ذخیروں پر سینکڑوں حملے کیے گئے ہیں جن میں حماس کی فوج کے سربراہ سمیت اب تک 113فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں اور840افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ بچے ہیں۔
فلسطینی راکیٹوں سے بھی تین اسرائیلی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ اس ہفتے اسرائیل پر ایک ہزار سے زیادہ راکیٹ برسائے جاچکے ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اِس دورے میں وزیر خارجہ کلنٹن کا زور اِس پر ہوگا کہ سفارت کاری کی بدولت ایک ایسا پُر امن حل تلاش کیا جائے جِس میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن و سلامتی میں رہنا ممکن ہو۔
اِس مقصد سے وہ مصر اور اسرائیل کے لیڈروں کے علاوہ علاقائی لیڈروں سے بھی ملیں گی۔
اُدھر دنیائے عرب سے حماس کو حمایت کا یقین دلانے میں لبنان کی حزب اللہ تنظیم کے سربراہ حسن نصر اللہ نے پیر کو ایک تقریر میں عرب لیڈروں سے اسرائیلی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید راکیٹ غزہ بھیجنے کی اپیل کی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے بھی عرب لیڈروں سے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے مزید راکیٹ روانہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر راکیٹوں اور توپ خانے سے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ حماس کا یہ تازہ حملہ اس امیدمیں کیا گیا ہو کہ مصر اُس کی مدد کو آئے گا۔ لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ نمائشی ہمدردی اور اسرائیل کے خلاف سخت عداوت کا اظہار کرنے کے باوجود نا تو صدر محمد مورصی اور نا ہی مصر کے عامة الناس اس جنگ میں حماس کے شریک بنے۔
اخبار کہتا ہے کہ اُنھیں زیادہ دلچسپی اپنی معیشت کی تعمیر نو میں ہے اور صدر مورصی اُس بین الاقوامی سفارت کاری میں کلیدی شخصیت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں جس کا مقصد فوری جنگ بندی کرانا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو نہ صرف اسرائیل کے ساتھ مل کر بلکہ محمد مورصی اور دوسرے علاقائی لیڈروں کے قریبی تعاون کے ساتھ فوجی جنگ بندی کے لیے کام کرنا چاہیئے۔
اُدھر،’بوسٹن گلوب‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے سے جاری اسرائیلی فلسطینی لڑائی کا ایک سفارتی حل قریب تر دکھائی دے رہا ہے اور مصری صدر نے پیش گوئی کی ہے کہ فضائی حملے گھنٹوں کے اندر ختم ہوجائیں گے، جب کہ اسرائلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حوالے سے اخبار نے کہا ہے کہ اسرائیل اسلامی عسکریت پسند جماعت حماس کے ساتھ جنگ بندی میں شرکت کرنے کے لیے تیار ہے، باوجود یکہ دونوں جانب سے راکیٹ حملے برابر جاری ہیں۔ حماس کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ایک معاہدہ طے پا جانے کے قریب ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل ‘کہتا ہے کہ یہ دورہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین جاری لڑائی کے پس منظر میں ہو رہا ہے جس میں منگل کے روز اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں اسلامی نیشنل بینک کے ہیڈکوارٹرز کو تباہ کردیا۔ یہ بینک غزہ کی حکمراں جماعت حماس نے اُس کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات سے بچنے کے لیے قائم کیا تھا۔ اسی بیچ اسرائیلی پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے جس نے ایک خنجر لہراتے ہوئے تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے ایک گارڈ پر حملہ کردیا تھا۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تشدد کا یہ نیا مرحلہ پچھلے ہفتے شروع ہوا تھا جب غزہ کی پٹی سے بغیر اشتعال کے اسرائیل پر راکیٹ برسنا شروع ہوئے تھے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے جوابی کارروائی شروع کی تھی اور حماس کے زیر زمین راکیٹ داغنے کے مقامات اور ہتھیاروں کے ذخیروں پر سینکڑوں حملے کیے گئے ہیں جن میں حماس کی فوج کے سربراہ سمیت اب تک 113فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں اور840افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ بچے ہیں۔
فلسطینی راکیٹوں سے بھی تین اسرائیلی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ اس ہفتے اسرائیل پر ایک ہزار سے زیادہ راکیٹ برسائے جاچکے ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اِس دورے میں وزیر خارجہ کلنٹن کا زور اِس پر ہوگا کہ سفارت کاری کی بدولت ایک ایسا پُر امن حل تلاش کیا جائے جِس میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن و سلامتی میں رہنا ممکن ہو۔
اِس مقصد سے وہ مصر اور اسرائیل کے لیڈروں کے علاوہ علاقائی لیڈروں سے بھی ملیں گی۔
اُدھر دنیائے عرب سے حماس کو حمایت کا یقین دلانے میں لبنان کی حزب اللہ تنظیم کے سربراہ حسن نصر اللہ نے پیر کو ایک تقریر میں عرب لیڈروں سے اسرائیلی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید راکیٹ غزہ بھیجنے کی اپیل کی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے بھی عرب لیڈروں سے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے مزید راکیٹ روانہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر راکیٹوں اور توپ خانے سے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ حماس کا یہ تازہ حملہ اس امیدمیں کیا گیا ہو کہ مصر اُس کی مدد کو آئے گا۔ لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ نمائشی ہمدردی اور اسرائیل کے خلاف سخت عداوت کا اظہار کرنے کے باوجود نا تو صدر محمد مورصی اور نا ہی مصر کے عامة الناس اس جنگ میں حماس کے شریک بنے۔
اخبار کہتا ہے کہ اُنھیں زیادہ دلچسپی اپنی معیشت کی تعمیر نو میں ہے اور صدر مورصی اُس بین الاقوامی سفارت کاری میں کلیدی شخصیت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں جس کا مقصد فوری جنگ بندی کرانا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو نہ صرف اسرائیل کے ساتھ مل کر بلکہ محمد مورصی اور دوسرے علاقائی لیڈروں کے قریبی تعاون کے ساتھ فوجی جنگ بندی کے لیے کام کرنا چاہیئے۔
اُدھر،’بوسٹن گلوب‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے سے جاری اسرائیلی فلسطینی لڑائی کا ایک سفارتی حل قریب تر دکھائی دے رہا ہے اور مصری صدر نے پیش گوئی کی ہے کہ فضائی حملے گھنٹوں کے اندر ختم ہوجائیں گے، جب کہ اسرائلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حوالے سے اخبار نے کہا ہے کہ اسرائیل اسلامی عسکریت پسند جماعت حماس کے ساتھ جنگ بندی میں شرکت کرنے کے لیے تیار ہے، باوجود یکہ دونوں جانب سے راکیٹ حملے برابر جاری ہیں۔ حماس کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ایک معاہدہ طے پا جانے کے قریب ہے۔