حقّانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکی فوجوں کا سب سے زیادہ خوفناک غنیم مانا جاتا ہے، جس کا افغان سرحد سے ملحق پاکستانی قبائیلی علاقے میں مضبوط گڑھ ہے
واشنگٹن —
حقّانی نیٹ ورک کے سرکردہ لیڈر، نصیرالدّین حقانی کی اسلام آباد کے مضافات میں ہلاکت پر ’کرسچن سائینس مانِٹر‘ کہتا ہے کہ وُہ اس نیٹ ورک کیلئے، جس کا طالبان اور القاعدہ دونوں سے گٹھ جوڑ ہے، سب سے زیادہ چندہ جمع کرتا تھا۔
اور اس کی موت سے ایک تو جنگجو تنظیموں کی باہمی آویزشوں کے بارے میں اور دوسرے اس وجہ سے تشویش بڑھ رہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کے لئے اس کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔
حقّانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکی فوجوں کا سب سے زیادہ خوفناک غنیم مانا جاتا ہے، جس کا افغان سرحد سے ملحق پاکستانی قبائیلی علاقے میں مضبوط گڑھ ہے، اور نصیرالدّین کی ہلاکت اس نیٹ ورک اور اس کے اتّحادیوں کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
امریکہ عرصے سے پاکستان کی آئی ایس آئی پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وُہ افغان جنگ میں اس نیٹ ورک کو امداد دیتا آیا ہے، جس کی پاکستانی عہدہ دار تردید کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سال کے اوائیل میں امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کا ایک دفتر قطر میں قائم کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی اس میں نصیرالدّین حقانی نیٹ ورک کی نمایندگی کر رہا تھا۔ اور خیال یہ تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات میں اُس کا کردار ہوگا۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے، کہ افغان حکام کو ایک ایسے شخص کے منظر سے ہٹائے جانے پر غصّہ ہوگا، جو طالبان کے ساتھ امن کے عمل کو ممکن بنانے کے لئے کام کر رہا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ حقّانی نیٹ ورک ابھی بھی امریکی فوجی کمانڈروں اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے لئے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اس نیٹ ورک نے کابل پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور دُنیا بھر سے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی جاری رکھی ہے۔
البتّہ، افغانستان میں پچھلے چند برسوں میں بعض لوگوں کے بدلتے ہوئے رویّے سے معاشرتی منظرنامے میں اس قدر فرق آیا ہے کہ حقّانی کے وفادار لشکریوں نے قبائیلی سرداروں کو کھانا اور پناہ دینے سے انکار پر جان سے مار دیا ہے۔
حقّانی نیٹ ورک کی سربراہی نصیرالدین کے بھائی سراج الدّین کے ہاتھ میں ہے اُن کے والد، جلال الدین حقّانی کو 1979 ءسے روسیوں کے خلاف لڑنے والےباعزّت کمانڈر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اختتام ہفتہ، فلیپینز میں جس طوفان نے تباہی پھیلائی ہے، ’یو ایس اے ٹودے‘ کے مطابق، وُہ اس قدر طاقت ور تھا کہ اُسے ’مہا ُطوفان‘ کا نام دیا گیا ہے، اور پیر کے روز حکام کا اندازہ تھا کہ دس ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، اور قوم کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ تباہی مچانے والی قدرتی آفت ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ نے فوری طور پر فلیپینز کی اس مشکل گھڑی میں امدادی سامان اور فوج اس ملک میں بھیج دی ہے۔ فلیپینز میں اس مہا طوفان کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے امریکی فوجی وسائل کو بروئے کار لانا لازمی تھا۔ اس کی تباہ کاریوں کی ایک مثال تکلوبان کا شہر ہے، جو مکمّل طور پر نیست و نابود ہوگیا ہے۔ اور وہاں جو لوگ بچ گئے ہیں خوراک اور پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس نوعیت کی امداد سنہ 2004 کی سونامی کے دوران فراہم کی گئی تھی، جب طیارہ بردار جہاز ’یُو ایس ایس ابرا ہام لنکن‘ اور دوسرا امدادی سامان ایشا روانہ کیا گیا تھا۔ اس امدادی مہم پر 875 ملین ڈالر لاگت آئی تھی۔ جو لگ بھگ تین دن میں افغانستان کی جنگ پر اُٹھنے والے خرچ کے برابر ہے۔
پلاسٹک سے ماحولیات کو پہنچے والے نقصان پر ’لاس وے گس‘ اخبار کہتا ہے کہ آپ کی نظر سے غالباً ایسے مناظر گُذرے ہیں جن میں پلاسٹک کے بنے ہوئے جالوں میں، جنہیں مچھیروں نے ویسے ہی پھینک دیا ہو، ڈالفِن مچھلیاں پھنسی ہوں یا بحرالکاہل کے طول و عرض میں پلاسٹک کا کچرہ تیرتا ہوا دیکھا ہوگا، سمندری کچھووں کو پلاسٹک کے تھیلوں کو چھوٹے مچھلیاں سمجھ کر کھاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ہر سال دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کا دو کروڑ ٹن کچرہ گرتا ہے، جو سمندروں کی ماحولیات کو تباہ کرتا رہتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صرف مغربی امریکی ساحل پر سے پلاسٹک کا کچرہ صاف کرنے جو لاگت آتی ہے، وُہ 13 ڈالر فی کس سالانہ بنتی ہے، اور چونکہ سمندر میں پلاسٹک معمول کی طرح نہیں گلتا۔ لہٰذا، آج کی آلودگی کئی نسلوں تک مسئلہ بنی رہے گی۔
البتہ اخبار کہتا ہے کہ جنوبی کیلی فورنیا میں پلاسٹک کے کچرے کے خلاف کامیاب مہم چلائی گئی ہے، وہاں پانی کی پچاس ہزار سے زیادہ گذرگاہوں میں جالیاں لگادی گئی ہیں، جس سے مقامی دریا پلاسٹک کی تھیلیوں سے پاک ہیں، پھر محض ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک تھیلیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پوری ریاست میں پلاسٹک تھیلوں کو ممنوع قرار دینے کئی کوششیں ایسی تھیلیاں بنانے والوں کی لابی اِنگ کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔
اخبار نے قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر بھی موجودہ مجموعی صورت حال مایوس کُن قرار دی ہے، اور ریو ڈی جنئیرو میں پچھلے سال کی اقوام متحدہ کی اُس کانفرنس کو سراہا ہے جس میں دریاؤوں اور سمندروں میں اس کچرے کو ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ قرار دیا تھا اور اس کے مداوے پر زور دیا تھا، تاکہ سنہ 2025 تک اس کچرے میں اس قدر کمی لائی جائے کہ ساحل اور پانی کے اندر کے ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
اور اس کی موت سے ایک تو جنگجو تنظیموں کی باہمی آویزشوں کے بارے میں اور دوسرے اس وجہ سے تشویش بڑھ رہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کے لئے اس کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔
حقّانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکی فوجوں کا سب سے زیادہ خوفناک غنیم مانا جاتا ہے، جس کا افغان سرحد سے ملحق پاکستانی قبائیلی علاقے میں مضبوط گڑھ ہے، اور نصیرالدّین کی ہلاکت اس نیٹ ورک اور اس کے اتّحادیوں کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
امریکہ عرصے سے پاکستان کی آئی ایس آئی پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وُہ افغان جنگ میں اس نیٹ ورک کو امداد دیتا آیا ہے، جس کی پاکستانی عہدہ دار تردید کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سال کے اوائیل میں امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کا ایک دفتر قطر میں قائم کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی اس میں نصیرالدّین حقانی نیٹ ورک کی نمایندگی کر رہا تھا۔ اور خیال یہ تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات میں اُس کا کردار ہوگا۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے، کہ افغان حکام کو ایک ایسے شخص کے منظر سے ہٹائے جانے پر غصّہ ہوگا، جو طالبان کے ساتھ امن کے عمل کو ممکن بنانے کے لئے کام کر رہا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ حقّانی نیٹ ورک ابھی بھی امریکی فوجی کمانڈروں اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے لئے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اس نیٹ ورک نے کابل پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور دُنیا بھر سے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی جاری رکھی ہے۔
البتّہ، افغانستان میں پچھلے چند برسوں میں بعض لوگوں کے بدلتے ہوئے رویّے سے معاشرتی منظرنامے میں اس قدر فرق آیا ہے کہ حقّانی کے وفادار لشکریوں نے قبائیلی سرداروں کو کھانا اور پناہ دینے سے انکار پر جان سے مار دیا ہے۔
حقّانی نیٹ ورک کی سربراہی نصیرالدین کے بھائی سراج الدّین کے ہاتھ میں ہے اُن کے والد، جلال الدین حقّانی کو 1979 ءسے روسیوں کے خلاف لڑنے والےباعزّت کمانڈر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اختتام ہفتہ، فلیپینز میں جس طوفان نے تباہی پھیلائی ہے، ’یو ایس اے ٹودے‘ کے مطابق، وُہ اس قدر طاقت ور تھا کہ اُسے ’مہا ُطوفان‘ کا نام دیا گیا ہے، اور پیر کے روز حکام کا اندازہ تھا کہ دس ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، اور قوم کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ تباہی مچانے والی قدرتی آفت ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ نے فوری طور پر فلیپینز کی اس مشکل گھڑی میں امدادی سامان اور فوج اس ملک میں بھیج دی ہے۔ فلیپینز میں اس مہا طوفان کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے امریکی فوجی وسائل کو بروئے کار لانا لازمی تھا۔ اس کی تباہ کاریوں کی ایک مثال تکلوبان کا شہر ہے، جو مکمّل طور پر نیست و نابود ہوگیا ہے۔ اور وہاں جو لوگ بچ گئے ہیں خوراک اور پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس نوعیت کی امداد سنہ 2004 کی سونامی کے دوران فراہم کی گئی تھی، جب طیارہ بردار جہاز ’یُو ایس ایس ابرا ہام لنکن‘ اور دوسرا امدادی سامان ایشا روانہ کیا گیا تھا۔ اس امدادی مہم پر 875 ملین ڈالر لاگت آئی تھی۔ جو لگ بھگ تین دن میں افغانستان کی جنگ پر اُٹھنے والے خرچ کے برابر ہے۔
پلاسٹک سے ماحولیات کو پہنچے والے نقصان پر ’لاس وے گس‘ اخبار کہتا ہے کہ آپ کی نظر سے غالباً ایسے مناظر گُذرے ہیں جن میں پلاسٹک کے بنے ہوئے جالوں میں، جنہیں مچھیروں نے ویسے ہی پھینک دیا ہو، ڈالفِن مچھلیاں پھنسی ہوں یا بحرالکاہل کے طول و عرض میں پلاسٹک کا کچرہ تیرتا ہوا دیکھا ہوگا، سمندری کچھووں کو پلاسٹک کے تھیلوں کو چھوٹے مچھلیاں سمجھ کر کھاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ہر سال دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کا دو کروڑ ٹن کچرہ گرتا ہے، جو سمندروں کی ماحولیات کو تباہ کرتا رہتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صرف مغربی امریکی ساحل پر سے پلاسٹک کا کچرہ صاف کرنے جو لاگت آتی ہے، وُہ 13 ڈالر فی کس سالانہ بنتی ہے، اور چونکہ سمندر میں پلاسٹک معمول کی طرح نہیں گلتا۔ لہٰذا، آج کی آلودگی کئی نسلوں تک مسئلہ بنی رہے گی۔
البتہ اخبار کہتا ہے کہ جنوبی کیلی فورنیا میں پلاسٹک کے کچرے کے خلاف کامیاب مہم چلائی گئی ہے، وہاں پانی کی پچاس ہزار سے زیادہ گذرگاہوں میں جالیاں لگادی گئی ہیں، جس سے مقامی دریا پلاسٹک کی تھیلیوں سے پاک ہیں، پھر محض ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک تھیلیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پوری ریاست میں پلاسٹک تھیلوں کو ممنوع قرار دینے کئی کوششیں ایسی تھیلیاں بنانے والوں کی لابی اِنگ کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔
اخبار نے قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر بھی موجودہ مجموعی صورت حال مایوس کُن قرار دی ہے، اور ریو ڈی جنئیرو میں پچھلے سال کی اقوام متحدہ کی اُس کانفرنس کو سراہا ہے جس میں دریاؤوں اور سمندروں میں اس کچرے کو ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ قرار دیا تھا اور اس کے مداوے پر زور دیا تھا، تاکہ سنہ 2025 تک اس کچرے میں اس قدر کمی لائی جائے کہ ساحل اور پانی کے اندر کے ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکے۔