امریکی فوجی عہدہ داروں کے حوالے سے، ’کرسچن سائینس مانٹر‘ نے بتایا ہے کہ شمالی کوریا کا کوئی حملہ معمولی نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسے بھاری جوابی حملے سے نہیں بچ سکتا، اور شمالی کوریا کی حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے
شمالی کوریا نے جو اعلان کیا ہے کہ اس نے جنوبی کوریا کے ساتھ سنہ 1953 کے صلحنامے کے معاہدے کو یک طرفہ طور پر کالعدم قرار دیا ہے، اس پر امریکہ نے اپنی حقارت کا اظہار کیا ہے اور شمالی کوریا کو سنگین الفاظ میں انتباہ کیا ہے کہ وہ جوہری حملہ کرنے کی اس سے پہلے کی دھمکیوں پر عمل درآمد کرنے سے گُریز کرے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ صلحنامے کو کالعدم قرار دینے کی اس دھمکی کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی وجوہات ہیں، کیونکہ ماضی میں وُہ کئی بار ایسا کر چُکا ہے اور باوجودیکہ صلحنامے کو کالعدم کرنے کے ساتھ ساتھ اُس نے ہاٹ لائن بھی منقطع کردی ہے، اس کی حقیقت گیدڑ بھبکی سے زیادہ کُچھ نہیں ہو سکتی ۔
اخبار نے امریکی فوجی عہدہ داروں کے حوالے سے بتا یا ہے کہ شمالی کوریا کا کوئی حملہ معمولی نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسے بھاری جوابی حملے سے نہیں بچ سکتا ، اور شمالی کوریا کی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنوبی کوریا نے اپنا دباؤ برقرار رکھا ہے اور اُ س نے کہا ہے کہ قانونی طور پر شمالی کوریا یک طرفہ طور پر صلحنامے کا معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔
سئیول میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صلحنامے کی دفعات کے تحت اور بین الاقوامی قانون کی رُو سے اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اُس نے کہا ہے کہ سئیول ایک تو اِس معاہدے کی پابندی کرے گا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور چین کے ساتھ صلاح مشورہ اور تعاون کو مزید مضبوط کرے گا ، جو دونوں اس معاہدے کے شریک فریق ہیں۔
’نیو یارک نیوز ڈے‘ نے شمالی کوریا کو دُنیا کا سب سے زیادہ ڈانوا ڈول جوہری ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وُہ نئے جواں سال لیڈر کِم جان ان کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں بعد کسی کی پرواہ کئے بغیر اب جنوبی کوریا اور امریکہ کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔اور اُس نے صلحنامے کے معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ٹُھکرا دیا ہے۔شمالی کوریا ماضی میں بھی جنگجُویانہ دھمکیا ں دیتا آیا ہے ، اور ظاہر ہے کہ جوہری تبادلہ اس کےلئے خود کُشی کے مترادف ہوگا ۔
اِس کے ساتھ ساتھ، اخبار نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ چونکہ سنگین بین الاقوامی تعزیرات نےاُسے اقتصادی اعتبار سے کنگال کردیا ہے، اس لئے اندیشہ ہے کہ کہیں وُہ جوہری ہتھیار اور جوہری ٹیکنالوجی دُنیا کی بدخواہ حکومتوں کو نہ فروخت کرنا شروع کر دے۔ اِس طرح، بڑھتا ہوا تناؤ بالآخر اوبامہ انتظامیہ کی توجّہ کا مرکز بن جائے گا، جس کی زیادہ تر توجُّہ اب تک ایران کے جوہری عزائم، مشرق وسطیٰ کی بدا منی، دہشت گردی اور افغانستان کی جنگ پر مرکُوز رہی ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اِن کشیدگیوں کو دور کرنے کے لئے چین کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہےجو شمالی کوریا کا پڑوسی اور تجارتی ساجھے دار ہے ۔ اپنی سرحدوں پر افترا تفری پھیلنے اور پناہ گُزینوں کی امکانی آمد کو روکنے کے لئے چین کو اپنے اس ڈانواں ڈول اتحادی پر د باؤ ڈالنا پڑے گا کہ وُہ کوئی ایسی غیر ذمّہ دارانہ حرکت نہ کر بیٹھے جس سے دوبارہ جنگ کی آگ بھڑ ک اُٹھے۔
صورت حال 12 فروری کے بعد سے خراب ہوئی ہے، جب شمالی کوریا نے ایک زیر زمین جوہری دھماکہ کیا جو اس کا تیسرا ایسا دھماکہ تھا ۔ اقوام متحدہ نے جواب میں اس فلاکت زدہ ملک کے خلاف مزید تعزیرات لگا دی ہیں۔
امریکہ نے صلحنامے کے معاہدے کے بعد سے جنوبی کوریا کو جوہری ڈھال فراہم کی ہے ،لیکن امریکہ ایک تو اپنے فوجی بجٹ میں کٹوتی کر رہا ہے ، اوراُسے دُنیا کے کئی علاقوں میں دھماکہ خیز صورت حال کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے جنوبی کوریا میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ وُہ اب اپنی سیکیورٹی کے لئے خالی امریکہ پر تکیہ نہیں کر سکتا ، اور اطلاعات کے مطابق وہاں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اُسے بھی بیرونی جارحیت کو روکنے کے لئے جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا کے پاس کوئی جوہری صلاحیت نہیں ہے اور اس کا کم امکان ہے کہ وہ مستقبل قریب میں یہ صلاحیت حاصل کرنے والا ہے۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ ان دو پُرانے غنیموں کے درمیان اس قسم کی عداوت ہیبت ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
شمالی کی یہ تاریخ ہے کہ جب اقتصادی تعزیرات اس کے لئے تکلیف دہ ہو جاتی ہیں تو وُہ جنگ کی دھمکی دینا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے میں نہ تو امریکہ اور نا ہی چین اس الگ تھلگ فلاکت زدہ لیکن جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کو نظر انداز کر سکتا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اگلے سال اپریل میں جب حامد کرزئی کی میعاد صدارت ختم ہوگی، تو افغانستان کے اتّحادیوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ اُن کی جگہ کون اور کس طرح آئے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد افغانوں کا صرف حامد کر زئی سے واسطہ رہا ہے، لیکن قیادت کے لئے اب جو نام سامنے آرہے ہیں اُن میں سابق وزیر داخلہ حنیف اتمر اور سابق امید وار عبداللہ عبداللہ پیش پیش ہیں۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حامد کرزئی ہو سکتا ہے کسی عزیز یا پِٹھوُکواپنا جا نشین بنانے کی کوشش کریں۔
آزادانہ انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اگر انتخابات ناقص ہوئے تو افغان حکومت ایک نازُک موڑ پر کمزور ہوگی، جس کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ صلحنامے کو کالعدم قرار دینے کی اس دھمکی کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی وجوہات ہیں، کیونکہ ماضی میں وُہ کئی بار ایسا کر چُکا ہے اور باوجودیکہ صلحنامے کو کالعدم کرنے کے ساتھ ساتھ اُس نے ہاٹ لائن بھی منقطع کردی ہے، اس کی حقیقت گیدڑ بھبکی سے زیادہ کُچھ نہیں ہو سکتی ۔
اخبار نے امریکی فوجی عہدہ داروں کے حوالے سے بتا یا ہے کہ شمالی کوریا کا کوئی حملہ معمولی نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسے بھاری جوابی حملے سے نہیں بچ سکتا ، اور شمالی کوریا کی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنوبی کوریا نے اپنا دباؤ برقرار رکھا ہے اور اُ س نے کہا ہے کہ قانونی طور پر شمالی کوریا یک طرفہ طور پر صلحنامے کا معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔
سئیول میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صلحنامے کی دفعات کے تحت اور بین الاقوامی قانون کی رُو سے اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اُس نے کہا ہے کہ سئیول ایک تو اِس معاہدے کی پابندی کرے گا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور چین کے ساتھ صلاح مشورہ اور تعاون کو مزید مضبوط کرے گا ، جو دونوں اس معاہدے کے شریک فریق ہیں۔
’نیو یارک نیوز ڈے‘ نے شمالی کوریا کو دُنیا کا سب سے زیادہ ڈانوا ڈول جوہری ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وُہ نئے جواں سال لیڈر کِم جان ان کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں بعد کسی کی پرواہ کئے بغیر اب جنوبی کوریا اور امریکہ کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔اور اُس نے صلحنامے کے معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ٹُھکرا دیا ہے۔شمالی کوریا ماضی میں بھی جنگجُویانہ دھمکیا ں دیتا آیا ہے ، اور ظاہر ہے کہ جوہری تبادلہ اس کےلئے خود کُشی کے مترادف ہوگا ۔
اِس کے ساتھ ساتھ، اخبار نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ چونکہ سنگین بین الاقوامی تعزیرات نےاُسے اقتصادی اعتبار سے کنگال کردیا ہے، اس لئے اندیشہ ہے کہ کہیں وُہ جوہری ہتھیار اور جوہری ٹیکنالوجی دُنیا کی بدخواہ حکومتوں کو نہ فروخت کرنا شروع کر دے۔ اِس طرح، بڑھتا ہوا تناؤ بالآخر اوبامہ انتظامیہ کی توجّہ کا مرکز بن جائے گا، جس کی زیادہ تر توجُّہ اب تک ایران کے جوہری عزائم، مشرق وسطیٰ کی بدا منی، دہشت گردی اور افغانستان کی جنگ پر مرکُوز رہی ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اِن کشیدگیوں کو دور کرنے کے لئے چین کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہےجو شمالی کوریا کا پڑوسی اور تجارتی ساجھے دار ہے ۔ اپنی سرحدوں پر افترا تفری پھیلنے اور پناہ گُزینوں کی امکانی آمد کو روکنے کے لئے چین کو اپنے اس ڈانواں ڈول اتحادی پر د باؤ ڈالنا پڑے گا کہ وُہ کوئی ایسی غیر ذمّہ دارانہ حرکت نہ کر بیٹھے جس سے دوبارہ جنگ کی آگ بھڑ ک اُٹھے۔
صورت حال 12 فروری کے بعد سے خراب ہوئی ہے، جب شمالی کوریا نے ایک زیر زمین جوہری دھماکہ کیا جو اس کا تیسرا ایسا دھماکہ تھا ۔ اقوام متحدہ نے جواب میں اس فلاکت زدہ ملک کے خلاف مزید تعزیرات لگا دی ہیں۔
امریکہ نے صلحنامے کے معاہدے کے بعد سے جنوبی کوریا کو جوہری ڈھال فراہم کی ہے ،لیکن امریکہ ایک تو اپنے فوجی بجٹ میں کٹوتی کر رہا ہے ، اوراُسے دُنیا کے کئی علاقوں میں دھماکہ خیز صورت حال کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے جنوبی کوریا میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ وُہ اب اپنی سیکیورٹی کے لئے خالی امریکہ پر تکیہ نہیں کر سکتا ، اور اطلاعات کے مطابق وہاں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اُسے بھی بیرونی جارحیت کو روکنے کے لئے جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا کے پاس کوئی جوہری صلاحیت نہیں ہے اور اس کا کم امکان ہے کہ وہ مستقبل قریب میں یہ صلاحیت حاصل کرنے والا ہے۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ ان دو پُرانے غنیموں کے درمیان اس قسم کی عداوت ہیبت ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
شمالی کی یہ تاریخ ہے کہ جب اقتصادی تعزیرات اس کے لئے تکلیف دہ ہو جاتی ہیں تو وُہ جنگ کی دھمکی دینا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے میں نہ تو امریکہ اور نا ہی چین اس الگ تھلگ فلاکت زدہ لیکن جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کو نظر انداز کر سکتا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اگلے سال اپریل میں جب حامد کرزئی کی میعاد صدارت ختم ہوگی، تو افغانستان کے اتّحادیوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ اُن کی جگہ کون اور کس طرح آئے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد افغانوں کا صرف حامد کر زئی سے واسطہ رہا ہے، لیکن قیادت کے لئے اب جو نام سامنے آرہے ہیں اُن میں سابق وزیر داخلہ حنیف اتمر اور سابق امید وار عبداللہ عبداللہ پیش پیش ہیں۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حامد کرزئی ہو سکتا ہے کسی عزیز یا پِٹھوُکواپنا جا نشین بنانے کی کوشش کریں۔
آزادانہ انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اگر انتخابات ناقص ہوئے تو افغان حکومت ایک نازُک موڑ پر کمزور ہوگی، جس کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔