تجزیہ نگار ولیم مائی لم کہتے ہیں کہ اِن واقعات سے اِس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ اُس ملک کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور وہ کمزوری اور عدم استحکام کا شکار ہے
پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت کی پانچ سال کی مدت پوری کرنے اور اگلے ماہ میں ہونے والے انتخابات پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے تازہ تجزئے میں کہا گیا ہے کہ اس حکومت کا یہ واحد کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے پانچ سال پورے کیے ہیں جِس کی اہمیت اُن خوفناک واقعات کے نیچے دب گئی ہے، جو آئے دِن اُس ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔
تجزیہ نگار ولیم مائی لم کہتے ہیں کہ اِن واقعات سے اِس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ اُس ملک کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور وہ کمزوری اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
ولیم مائی لم، جو پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ظلم کے نتیجے میں مزید ظلم پلتے ہیں۔
’اِس ملک میں اقلیتوں کو انتہا پسند بلاروک ٹوک نشانہ بناتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور یہ انتہا پسند پھر اس پر شیخی بھی بھگارتے ہیں۔ تشدد کا شکار محض اقلیتیں ہی نہیں بلکہ اساس پسندوں نے مسلمان کی جو تنگ نظر تعریف مقرر کر رکھی ہے، اگر کوئی شخص اُس پر پورا نہیں اترتا تو اُس پر اُن کی طرف سے حملے کا زیادہ امکان ہے۔ ملک میں جگہ جگہ صوفیوں کی جو خانقاہیں ہیں اور جن کو سنی فرقے کے نصف سے زیادہ آبادی کی عقیدت اور احترام حاصل ہے، اُن کو بھی یہ شدت پسند نشانہ بناتے ہیں اور اُنھیں مُرتد سمجھتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انسانیت دوست سرگرم کارکنوں کو غریبوں میں معاشرتی اور طبی امداد تقسیم کرنے پر گولی ماردی جاتی ہے۔
انتہا پسندوں نے حال ہی میں سماجی کارکن پروین رحمٰن کو گولی مار کر ہلاک کردیا جو کراچی میں اورنگی ٹاؤن کے مقتدر این جی او کی سربراہ تھیں۔
ادھر، انتخابات کی آمد آمد ہے اور سیاست دانوں سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اِن شدت پسندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عہد کریں گے۔ لیکن، اِس کے برعکس، یہ بات سیاست دان اِن شدت پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تاریخی طور پر ہندوستان کو اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ سمجھ رکھا ہے، جس کی وجہ سے اُس کی فوج کو سیاست دانوں سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے اور ملک کے وسائل کے بیشتر حصے پر فوج کا تصرف رہا ہے، تاکہ وہ ہندوستان کے ساتھ برابری کا درجہ برقرار رکھ سکے۔ فوج نے مذہبی انتہا پسندوں کو بھرتی کرکے اُنھیں ہندوستان اور افغانستان میں استعمال کیا۔ اور جیسا کہ مضمون نگار کا کہنا ہے، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ فوج کو اِن انتہا پسندوں پر اب کوئی کنٹرول حاصل نہیں رہا ہے،جِنھوں نے خود ملک اور اُس کے شہریوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
مضمون نگار کی نظر میں پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو اپنے ہی پیدا کردہ عفریتوں کی زد میں ہے،جِس کے سیاسی اور اقتصادی ادارے بیشتر ناکارہ ہو چکے ہیں اور جن میں تبدیلی کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے۔
چناچہ، مضمون نگارکا مغرب اور پاکستان کے پڑوسیوں کو یہ مشورہ ہے کہ وہ جوہری اسلحے سے لیس اس ملک کے تنزل کے سیاسی اور سٹریٹجک عواقب پر غور کریں۔
شمالی کوریا کی طرف سے کئی روز سے جو دھمکیاں دی جارہی ہیں اُس پر اخبار ’سی ایٹل ٹائمز‘ ایک اداریے میں مشورہ دیتا ہے کہ صدر تھیوڈور روزویلٹ کا یہ مشورہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آپ اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ لیکن، ہاتھ میں ایک چھڑی بھی ضرور رکھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے اِن تشویش ناک دھمکیوں پر ایسا ردِ عمل نہیں ہونا چاہیئے کہ پیانگ یانگ کی طرف سے مزید اشتعال انگیزیاں ہوں۔
شمالی کوریا کے دارالحکومت میں غیر ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے جو سفارتی نمائندے ہیں، اُنھوں نے شمالی کوریا کے طرز عمل پر نہایت ہی مناسب ردِعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا کی جنگجویانہ گفتار معروضی حقائق سے مختلف ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیانگ یانگ کے پاس اِن دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اگر حملہ ہوا تو جنوبی کوریا کے شہریوں کو سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ لیکن، اُنھیں اِن دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے، اور سیئول کے شہری بلکہ خود پیانگ یانگ کے شہری اپنے معمول کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس پورے واقع کی بے ہودگی شمالی کوریا کے اس اقدام سے ظاہر ہے کہ اس نے جنگ بندی کے علاقے کے شمال میں اُس صنعتی علاقے کو بند کردیا ہے جہاں جنوبی کوریا کی 120کمپنیوں میں شمالی کوریا کے 53000ملازم کام کرتے ہیں اور جن کی تنخواہیں پیانگ یانگ کی وساطت سے ادا کی جاتی ہیں۔
چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا دنیا کی توجہ اپنی طرف کرانے کے لیے جو اوچھی حرکتیں کررہا ہے اُن کو باہر کی دنیا کی طرف سے تقویت نہیں ملنی چاہیئے جو حد سے زیادہ ردِ عمل کے اظہار سے ہوگی۔
تجزیہ نگار ولیم مائی لم کہتے ہیں کہ اِن واقعات سے اِس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ اُس ملک کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور وہ کمزوری اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
ولیم مائی لم، جو پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ظلم کے نتیجے میں مزید ظلم پلتے ہیں۔
’اِس ملک میں اقلیتوں کو انتہا پسند بلاروک ٹوک نشانہ بناتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور یہ انتہا پسند پھر اس پر شیخی بھی بھگارتے ہیں۔ تشدد کا شکار محض اقلیتیں ہی نہیں بلکہ اساس پسندوں نے مسلمان کی جو تنگ نظر تعریف مقرر کر رکھی ہے، اگر کوئی شخص اُس پر پورا نہیں اترتا تو اُس پر اُن کی طرف سے حملے کا زیادہ امکان ہے۔ ملک میں جگہ جگہ صوفیوں کی جو خانقاہیں ہیں اور جن کو سنی فرقے کے نصف سے زیادہ آبادی کی عقیدت اور احترام حاصل ہے، اُن کو بھی یہ شدت پسند نشانہ بناتے ہیں اور اُنھیں مُرتد سمجھتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انسانیت دوست سرگرم کارکنوں کو غریبوں میں معاشرتی اور طبی امداد تقسیم کرنے پر گولی ماردی جاتی ہے۔
انتہا پسندوں نے حال ہی میں سماجی کارکن پروین رحمٰن کو گولی مار کر ہلاک کردیا جو کراچی میں اورنگی ٹاؤن کے مقتدر این جی او کی سربراہ تھیں۔
ادھر، انتخابات کی آمد آمد ہے اور سیاست دانوں سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اِن شدت پسندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عہد کریں گے۔ لیکن، اِس کے برعکس، یہ بات سیاست دان اِن شدت پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تاریخی طور پر ہندوستان کو اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ سمجھ رکھا ہے، جس کی وجہ سے اُس کی فوج کو سیاست دانوں سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے اور ملک کے وسائل کے بیشتر حصے پر فوج کا تصرف رہا ہے، تاکہ وہ ہندوستان کے ساتھ برابری کا درجہ برقرار رکھ سکے۔ فوج نے مذہبی انتہا پسندوں کو بھرتی کرکے اُنھیں ہندوستان اور افغانستان میں استعمال کیا۔ اور جیسا کہ مضمون نگار کا کہنا ہے، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ فوج کو اِن انتہا پسندوں پر اب کوئی کنٹرول حاصل نہیں رہا ہے،جِنھوں نے خود ملک اور اُس کے شہریوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
مضمون نگار کی نظر میں پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو اپنے ہی پیدا کردہ عفریتوں کی زد میں ہے،جِس کے سیاسی اور اقتصادی ادارے بیشتر ناکارہ ہو چکے ہیں اور جن میں تبدیلی کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے۔
چناچہ، مضمون نگارکا مغرب اور پاکستان کے پڑوسیوں کو یہ مشورہ ہے کہ وہ جوہری اسلحے سے لیس اس ملک کے تنزل کے سیاسی اور سٹریٹجک عواقب پر غور کریں۔
شمالی کوریا کی طرف سے کئی روز سے جو دھمکیاں دی جارہی ہیں اُس پر اخبار ’سی ایٹل ٹائمز‘ ایک اداریے میں مشورہ دیتا ہے کہ صدر تھیوڈور روزویلٹ کا یہ مشورہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آپ اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ لیکن، ہاتھ میں ایک چھڑی بھی ضرور رکھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے اِن تشویش ناک دھمکیوں پر ایسا ردِ عمل نہیں ہونا چاہیئے کہ پیانگ یانگ کی طرف سے مزید اشتعال انگیزیاں ہوں۔
شمالی کوریا کے دارالحکومت میں غیر ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے جو سفارتی نمائندے ہیں، اُنھوں نے شمالی کوریا کے طرز عمل پر نہایت ہی مناسب ردِعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا کی جنگجویانہ گفتار معروضی حقائق سے مختلف ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیانگ یانگ کے پاس اِن دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اگر حملہ ہوا تو جنوبی کوریا کے شہریوں کو سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ لیکن، اُنھیں اِن دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے، اور سیئول کے شہری بلکہ خود پیانگ یانگ کے شہری اپنے معمول کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس پورے واقع کی بے ہودگی شمالی کوریا کے اس اقدام سے ظاہر ہے کہ اس نے جنگ بندی کے علاقے کے شمال میں اُس صنعتی علاقے کو بند کردیا ہے جہاں جنوبی کوریا کی 120کمپنیوں میں شمالی کوریا کے 53000ملازم کام کرتے ہیں اور جن کی تنخواہیں پیانگ یانگ کی وساطت سے ادا کی جاتی ہیں۔
چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا دنیا کی توجہ اپنی طرف کرانے کے لیے جو اوچھی حرکتیں کررہا ہے اُن کو باہر کی دنیا کی طرف سے تقویت نہیں ملنی چاہیئے جو حد سے زیادہ ردِ عمل کے اظہار سے ہوگی۔