اُن دہشت گرد حملوں کے مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے، ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خالد شیخ محمد کا نہیں بلکہ پانچ ملزمان کے خلاف ایک ایسے انوکھے واقعے کا مقدّمہ ہے جِس میں لگ بھگ 3000 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا
اخبار ’کینسس سٹی سٹار‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ القاعدہ کے ہلاک شدہ لیڈر اوسامہ بن لادن کے گُمراہ پیرو کار مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں تقریباً 3000 بے گناہ افراد کے قتل عام کے 12 سال بعد بھی اس سانحے کے اثرات ساری دنیا میں ہویدا ہیں۔
اس میں خلیج گوانتانامو کی فوجی عدالت کا وُہ کمرہ بھی شامل ہے جہاں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے مبیّنہ سب سے بڑے سازشی خالد شیخ محمد اور کئی دوسرے قیدی ملزمان بالآخر آہستہ آہستہ باقاعدہ مقدّمے کے قریب تر پہنچ رہے ہیں۔ یہ مقدّمہ اب سے ایک سال بعد شروع ہونے والا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس مقدّمے سے قبل جو ٹیکنکل لوازمات پوری کی جا رہی ہیں، اُن کی طرف کوئی توجّہ نہیں دے رہا۔ لیکن، وہ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ اُن سے قانوں کی بالادستی کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ان ملزمان کے مقدّمے کے لئے جو فوجی کمشن مقرر کیا گیا ہےاس نے ایک درجن سے زیاہ گواہوں کی 40 گھنٹے سے زیادہ کی شہادت قلمبند کرلی ہے اور 100 سے زیادہ ٹیکنکل تحریکیں نمٹا لی ہیں۔ ان قانونی لوازمات کو مقدّمے سے قبل پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس مقدمے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے اور ایسا کرنا کیوں ضروری ہے، اِس پر اخبار کہتا ہے کہ یہ محض خالد شیخ محمد کا نہیں بلکہ پانچ ملزمان کے خلاف ایک ایسے انوکھے واقعے کا مقدّمہ ہے جس میں لگ بھگ 3000 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا، اور جسے باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے ان قانونی لوازمات کو پورا کرنا ضروری ہے، اور استغاثہ کے سب سے بڑے وکیل مارک مارٹِنز نے اسے امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑی تفتیش قرار دیا ہے۔
صفائی کے پانچ وکلاٴ کے بارے میں اُنہوں نے کہا کہ وہ موثّر اور لائق وکیل ہیں جو ہر کوشش کریں گے کہ ان کے موٴکلوں کے ساتھ انصاف ہو۔ اس میں وقت لگتا ہےاور اخبار کا کہنا ہے کہ یہ وکلائے صفائی ملزمان کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر سوالات اُٹھا کر طوالت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طوالت کی وجہ سے اُن خاندانوں کے جذبات بھی مجروح ہو رہے ہیں، جن کے عزیز 11 ستمبر 2001 ء میں موت کا شکار ہوئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ان دہشت گرد حملوں کے بعد، کئی اعتبار سے امریکہ نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن، اُن کی وجہ سے شہری اور فوجی زندگی جس طرح مجروح ہوئی ہے، اُسے بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ لیکن، امریکی قوم کو اس پر فخر وہُ نہ تو اپنی اساس اور نا ہی اپنی بنیادی اقدار کو بُھولی ہے۔ اور س اعتبار سے دہشت گردوں کو شکست ہوئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر الطاف حسین کے مستقبل کے بارے میں اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحہٴ اوّل پر اُن کی تصویر کے ساتھ ایک مضمون چھپا ہے۔ اِ س میں لندن میں اُن کی 20 سالہ جلاوطنی کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جہاں وُہ اپنے پُرتعیّش مکان سے کروڑوں ڈالر کے اثاثوں کا انتظام کرتے ہیں۔ اور سیٹیلائٹ ٹیلی وژن کی وساطت سے کراچی میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہیں، جو کئی کئی گھنٹے جاری رہتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس عالمی سسٹم کے استعمال کا واحد مقصد الطاف حسین کے کراچی شہر کے سیاسی بادشاہ کا رُتبہ برقرار رکھنا ہے۔ لیکن، اب اخبار بقول، اس میں ایک اڑچن آگئی ہے۔ اور یہ 59 سالہ ایم کیو ایم لیڈر اور ان کی تحریک ایک قتل کی تفتیش کا نشانہ بن گئی ہے۔ ان کے لندن کے مکان اور دفاتر پر چھاپہ مارا گیا ہے اور پولیس کی تفتیش میں اُن کے خلاف کالا دھن سفید کرنے اور پاکستان میں تشدّد کو ہوا دینے کے الزامات شامل کر لئے گئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے، صاف لگ رہا ہے کہ اس تفتیش کی وجہ سےالطاف حسین پریشان ہیں۔ اور اُنہوں نے حال ہی میں اپنے پیروکاروں کو خبردار کیا تھا کہ وُہ شاید گرفتار ہونے والے ہیں۔
اخبار نے معروف کالم نگار عرفان حسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پارٹی کمزور ہو رہی ہے اور الطاف حسین پر پہلے کسی نے بھی انگلی نہیں اُٹھائی تھی۔ اخبار نے الطاف حسین کے سیاسی عروج کو پاکستانی سیاسی تاریخ کے ایک مثالی نمونے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں ہندوستان سے پاکستان نقل وطن کرنے والے مہاجروں کی حمائت حاصل رہی ہے اور 1980 ءسے اُن کی پارٹی نے ان مہاجرین کے مفادات کا سختی کے ساتھ تحفظ کیا ہے، جس کی بدولت اس پارٹی نے تقریباً ہر انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ اور وُہ قومی مخلوط میں بھی جگہ حاصل کرتی رہی، لیکن 1992 ء میں الطاف حسین لندن بھاگ گئے جب ان کی تحریک مرکزی حکومت کے ساتھ کراچی میں فوقیت حاصل کرنے کے لئے اس کی گلیوں اور کوچوں میں لڑائیاں لڑ رہی تھی۔ برطانوی حکومت نے اُنہیں سیاسی پناہ دے دی اور 10 سال بعد برطانوی پاسپورٹ بھی۔
اخبار کہتا ہے کہ لندن میں عرصہٴدراز سے پاکستانی سیاست دان اُس وقت تک سیاسی پناہ لیتے آئے ہیں جب تک پاکستان واپس جانے کے لئے حالات اُن کے لئے ساز گار نہیں ہوتے۔۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف حال ہی تک لندن میں مقیم تھے۔ اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف بھی سنہ 2007 تک لندن میں تھے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ الطاف حسین کے واپس پاکستان جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اور حالیہ ہنگاموں کے بعد وہ منظر عام میں کم دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ تر لندن کے مضافات میں اپنے گھر میں رہتے ہیں جسے اونچی اونچیدیواروں اور سیکیورٹی کیمروں سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے سابقہ برطانوی سپاہیوں کے ایک دستے کو اپنی حفاظت کے لئے کرائے پر حاصل کر لیا ہے۔
اس میں خلیج گوانتانامو کی فوجی عدالت کا وُہ کمرہ بھی شامل ہے جہاں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے مبیّنہ سب سے بڑے سازشی خالد شیخ محمد اور کئی دوسرے قیدی ملزمان بالآخر آہستہ آہستہ باقاعدہ مقدّمے کے قریب تر پہنچ رہے ہیں۔ یہ مقدّمہ اب سے ایک سال بعد شروع ہونے والا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس مقدّمے سے قبل جو ٹیکنکل لوازمات پوری کی جا رہی ہیں، اُن کی طرف کوئی توجّہ نہیں دے رہا۔ لیکن، وہ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ اُن سے قانوں کی بالادستی کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ان ملزمان کے مقدّمے کے لئے جو فوجی کمشن مقرر کیا گیا ہےاس نے ایک درجن سے زیاہ گواہوں کی 40 گھنٹے سے زیادہ کی شہادت قلمبند کرلی ہے اور 100 سے زیادہ ٹیکنکل تحریکیں نمٹا لی ہیں۔ ان قانونی لوازمات کو مقدّمے سے قبل پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس مقدمے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے اور ایسا کرنا کیوں ضروری ہے، اِس پر اخبار کہتا ہے کہ یہ محض خالد شیخ محمد کا نہیں بلکہ پانچ ملزمان کے خلاف ایک ایسے انوکھے واقعے کا مقدّمہ ہے جس میں لگ بھگ 3000 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا، اور جسے باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے ان قانونی لوازمات کو پورا کرنا ضروری ہے، اور استغاثہ کے سب سے بڑے وکیل مارک مارٹِنز نے اسے امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑی تفتیش قرار دیا ہے۔
صفائی کے پانچ وکلاٴ کے بارے میں اُنہوں نے کہا کہ وہ موثّر اور لائق وکیل ہیں جو ہر کوشش کریں گے کہ ان کے موٴکلوں کے ساتھ انصاف ہو۔ اس میں وقت لگتا ہےاور اخبار کا کہنا ہے کہ یہ وکلائے صفائی ملزمان کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر سوالات اُٹھا کر طوالت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طوالت کی وجہ سے اُن خاندانوں کے جذبات بھی مجروح ہو رہے ہیں، جن کے عزیز 11 ستمبر 2001 ء میں موت کا شکار ہوئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ان دہشت گرد حملوں کے بعد، کئی اعتبار سے امریکہ نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن، اُن کی وجہ سے شہری اور فوجی زندگی جس طرح مجروح ہوئی ہے، اُسے بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ لیکن، امریکی قوم کو اس پر فخر وہُ نہ تو اپنی اساس اور نا ہی اپنی بنیادی اقدار کو بُھولی ہے۔ اور س اعتبار سے دہشت گردوں کو شکست ہوئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر الطاف حسین کے مستقبل کے بارے میں اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحہٴ اوّل پر اُن کی تصویر کے ساتھ ایک مضمون چھپا ہے۔ اِ س میں لندن میں اُن کی 20 سالہ جلاوطنی کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جہاں وُہ اپنے پُرتعیّش مکان سے کروڑوں ڈالر کے اثاثوں کا انتظام کرتے ہیں۔ اور سیٹیلائٹ ٹیلی وژن کی وساطت سے کراچی میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہیں، جو کئی کئی گھنٹے جاری رہتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس عالمی سسٹم کے استعمال کا واحد مقصد الطاف حسین کے کراچی شہر کے سیاسی بادشاہ کا رُتبہ برقرار رکھنا ہے۔ لیکن، اب اخبار بقول، اس میں ایک اڑچن آگئی ہے۔ اور یہ 59 سالہ ایم کیو ایم لیڈر اور ان کی تحریک ایک قتل کی تفتیش کا نشانہ بن گئی ہے۔ ان کے لندن کے مکان اور دفاتر پر چھاپہ مارا گیا ہے اور پولیس کی تفتیش میں اُن کے خلاف کالا دھن سفید کرنے اور پاکستان میں تشدّد کو ہوا دینے کے الزامات شامل کر لئے گئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے، صاف لگ رہا ہے کہ اس تفتیش کی وجہ سےالطاف حسین پریشان ہیں۔ اور اُنہوں نے حال ہی میں اپنے پیروکاروں کو خبردار کیا تھا کہ وُہ شاید گرفتار ہونے والے ہیں۔
اخبار نے معروف کالم نگار عرفان حسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پارٹی کمزور ہو رہی ہے اور الطاف حسین پر پہلے کسی نے بھی انگلی نہیں اُٹھائی تھی۔ اخبار نے الطاف حسین کے سیاسی عروج کو پاکستانی سیاسی تاریخ کے ایک مثالی نمونے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں ہندوستان سے پاکستان نقل وطن کرنے والے مہاجروں کی حمائت حاصل رہی ہے اور 1980 ءسے اُن کی پارٹی نے ان مہاجرین کے مفادات کا سختی کے ساتھ تحفظ کیا ہے، جس کی بدولت اس پارٹی نے تقریباً ہر انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ اور وُہ قومی مخلوط میں بھی جگہ حاصل کرتی رہی، لیکن 1992 ء میں الطاف حسین لندن بھاگ گئے جب ان کی تحریک مرکزی حکومت کے ساتھ کراچی میں فوقیت حاصل کرنے کے لئے اس کی گلیوں اور کوچوں میں لڑائیاں لڑ رہی تھی۔ برطانوی حکومت نے اُنہیں سیاسی پناہ دے دی اور 10 سال بعد برطانوی پاسپورٹ بھی۔
اخبار کہتا ہے کہ لندن میں عرصہٴدراز سے پاکستانی سیاست دان اُس وقت تک سیاسی پناہ لیتے آئے ہیں جب تک پاکستان واپس جانے کے لئے حالات اُن کے لئے ساز گار نہیں ہوتے۔۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف حال ہی تک لندن میں مقیم تھے۔ اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف بھی سنہ 2007 تک لندن میں تھے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ الطاف حسین کے واپس پاکستان جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اور حالیہ ہنگاموں کے بعد وہ منظر عام میں کم دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ تر لندن کے مضافات میں اپنے گھر میں رہتے ہیں جسے اونچی اونچیدیواروں اور سیکیورٹی کیمروں سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے سابقہ برطانوی سپاہیوں کے ایک دستے کو اپنی حفاظت کے لئے کرائے پر حاصل کر لیا ہے۔