واشنگٹن —
'القاعدہ' کے سربراہ ایمن الظواہری نے خلیجِ گوانتانامو میں قائم امریکی قید خانے میں بھوک ہڑتالی قیدیوں کے ساتھ انتظامیہ کے سلوک پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
بدھ کو انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے اپنے ایک آڈیو بیان میں الظواہری نے کہا ہے کہ گوانتانامو میں جاری "ہمارے بھائیوں کی بھوک ہڑتال نے امریکہ کے اصل بدصورت چہرے کو بے نقاب کردیا ہے"۔
مذکورہ بیان مسلمان شدت پسندوں کی ایک ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے لیکن تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیا اس میں آواز الزواہری ہی کی ہے۔
اپنے بیان میں القاعدہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ان کی تنظیم گوانتانامو میں قید تمام قیدیوں کو رہا کرانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ایمن الظواہری نے اپنے بیان میں خاص طور پر امریکی قید میں موجود پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی، 11 ستمبر کے حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور عمر عبدالرحمان کا نام لے کر ان کی رہائی کے لیے کوشش کرنے کا بھی اعلان کیا۔
'القاعدہ' کے سربراہ نے اپنے آڈیو پیغام میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ان افراد کو رہائی دلانے کے لیے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ماضی میں شدت پسند تنظیمیں مختلف حکومتوں کی قید میں موجود اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے مغربی ممالک کے شہریوں کو اغوا کرتی رہی ہیں۔
'القاعدہ' نے گزشتہ ہفتے عراق میں دو جیلوں پر کیے جانے والے بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جن میں حملہ آوروں نے پانچ سو سے زائد قیدیوں کو رہا کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
رواں ہفتے پاکستان کے شہر ڈیرہ اسمعیل خان میں بھی شدت پسندوں نے ایک جیل پر حملہ کرکے لگ بھگ ڈھائی سو قیدی رہا کرالیے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی جن کے 'القاعدہ' سے روابط کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
لیکن کیوبا کے علاقے خلیجِ گوانتانامو میں واقع امریکی حراستی مرکز پر 'القاعدہ' کے اس نوعیت کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جہاں اس وقت بھی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 166 قیدی موجود ہیں۔
ان میں سے بیشتر قیدیوں کو امریکی حکام نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد مختلف ممالک میں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں کے دوران میں حراست میں لیا تھا۔
امریکی قید خانے میں موجود قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کسی عدالتی کاروائی کے بغیر اپنی طویل حراست اور جیل کے عملے کے رویے کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہے جس کے باعث کئی بھوک ہڑتالی قیدیوں کو جیل انتظامیہ نالیوں کے ذریعے زبردستی خوراک دے رہی ہے۔
اپنے آڈیو بیان میں القاعدہ کے سربراہ نے امریکہ کی جانب سے افغانستان، پاکستان اور یمن میں ڈرون طیاروں کے ذریعے مسلمان شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کی کاروائیوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے "امریکہ کی شکست کی نشانی" قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں 'القاعدہ' کے مصری نژاد سربراہ نے امریکی صدر براک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان ڈرون حملوں کے ذریعے نفرت اور انتقام کی میراث چھوڑ رہے ہیں۔
ایمن الظواہری نے اپنے بیان میں شام میں لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کی مداخلت پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے خطے میں ایران کی بالادستی قائم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
بدھ کو انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے اپنے ایک آڈیو بیان میں الظواہری نے کہا ہے کہ گوانتانامو میں جاری "ہمارے بھائیوں کی بھوک ہڑتال نے امریکہ کے اصل بدصورت چہرے کو بے نقاب کردیا ہے"۔
مذکورہ بیان مسلمان شدت پسندوں کی ایک ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے لیکن تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیا اس میں آواز الزواہری ہی کی ہے۔
اپنے بیان میں القاعدہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ان کی تنظیم گوانتانامو میں قید تمام قیدیوں کو رہا کرانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ایمن الظواہری نے اپنے بیان میں خاص طور پر امریکی قید میں موجود پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی، 11 ستمبر کے حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور عمر عبدالرحمان کا نام لے کر ان کی رہائی کے لیے کوشش کرنے کا بھی اعلان کیا۔
'القاعدہ' کے سربراہ نے اپنے آڈیو پیغام میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ان افراد کو رہائی دلانے کے لیے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ماضی میں شدت پسند تنظیمیں مختلف حکومتوں کی قید میں موجود اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے مغربی ممالک کے شہریوں کو اغوا کرتی رہی ہیں۔
'القاعدہ' نے گزشتہ ہفتے عراق میں دو جیلوں پر کیے جانے والے بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جن میں حملہ آوروں نے پانچ سو سے زائد قیدیوں کو رہا کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
رواں ہفتے پاکستان کے شہر ڈیرہ اسمعیل خان میں بھی شدت پسندوں نے ایک جیل پر حملہ کرکے لگ بھگ ڈھائی سو قیدی رہا کرالیے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی جن کے 'القاعدہ' سے روابط کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
لیکن کیوبا کے علاقے خلیجِ گوانتانامو میں واقع امریکی حراستی مرکز پر 'القاعدہ' کے اس نوعیت کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جہاں اس وقت بھی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 166 قیدی موجود ہیں۔
ان میں سے بیشتر قیدیوں کو امریکی حکام نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد مختلف ممالک میں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں کے دوران میں حراست میں لیا تھا۔
امریکی قید خانے میں موجود قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کسی عدالتی کاروائی کے بغیر اپنی طویل حراست اور جیل کے عملے کے رویے کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہے جس کے باعث کئی بھوک ہڑتالی قیدیوں کو جیل انتظامیہ نالیوں کے ذریعے زبردستی خوراک دے رہی ہے۔
اپنے آڈیو بیان میں القاعدہ کے سربراہ نے امریکہ کی جانب سے افغانستان، پاکستان اور یمن میں ڈرون طیاروں کے ذریعے مسلمان شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کی کاروائیوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے "امریکہ کی شکست کی نشانی" قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں 'القاعدہ' کے مصری نژاد سربراہ نے امریکی صدر براک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان ڈرون حملوں کے ذریعے نفرت اور انتقام کی میراث چھوڑ رہے ہیں۔
ایمن الظواہری نے اپنے بیان میں شام میں لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کی مداخلت پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے خطے میں ایران کی بالادستی قائم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔