’اگرچہ کانگریس کے ارکان کے درمیان سنگین اختلاف پایا جاتا ہے اور رائے عامّہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی فوجی کاروائی کی مخالفت کر رہے ہیں، صدر اوبامہ کو منگل کے روز ایوان کے دو اعلیٰ ری پبلکن ارکان، سپیکر جان بینر، اور اکثریتی پارٹی کے لیڈر ایرک کینٹر کی حمائت حاصل ہوگئی ہے‘
’لاس انجلس ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دونوں پارٹیوں کے کلیدی ارکان نے شام کے خلاف تادیبی کاروائی کے لئے صدر اوبامہ کی اپیل کی تائید کی ہے، اور اُن کی اس طرح کانگریس کی حمائت حاصل کرنے کی مہم نے زور پکڑا ہے۔ سنہ 2002 میں عراق کی جنگ کے آغاز سے پہلے فوجی طاقت کے استعمال پر بحث کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایسی دوررس بحث ہو رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ کانگریس کے ارکان کے درمیان سنگین اختلاف پایا جاتا ہے اور رائے عامّہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی فوجی کاروائی کی مخالفت کر رہے ہیں، صدر اوبامہ کو منگل کے روز ایوان کے دو اعلیٰ ری پبلکن ارکان، سپیکر جان بینر، اور اکثریتی پارٹی کے لیڈر ایرک کینٹر کی حمائت حاصل ہوگئی۔ سینٹ کے اہم ڈیموکریٹک رکن سٹینی ہو ئر اور ایوان کی نمبر دو ڈیموکریٹک رکن نینسی پلوسی پہلے ہی اُن کی حمائت میں ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں ممتاز ڈیموکریٹک اور ریپبلکن لیڈروں نےایک قرارداد کے متن پر اتفاق کیا جس کی رو سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کی پاداش میں شام کے خلاف امریکہ فوجی کاروائی کرے گا۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ امریکی برّی فوج کو وہاں بھیجنے کو خارج از امکان قرار دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نےشام میں فوجی کاروائی کرنے کے منصوبے کے لئے کانگریس کی حمائت حاصل کرنے کا فیصلہ کرکے اپنی عہد صدارت کا سب سے بڑا خطرہ مول لیا ہے، کیونکہ انہیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے اس مشن کے لئے اندرون ملک اندر اور بیرونی ممالک کی طرف سے حمائت کو تقوئت ملے گی۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ انہیں یہ خطرہ ایوان کے ایسے عام ارکان سے ہے جنہیں اس کا اندازہ ہے کہ بہت سے امریکی مشرق وسطیٰ میں مزید امریکی فوجی کاروائی کےخلاف ہیں جس بنا پر وُہ اپنے لیڈروں کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پِو ریسرچ سنٹر نے ’واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی‘ کے رائے عامہ کے جو نتائج جاری کئے ہیں، ان کے مطابق امریکی عوام شام میں کسی امریکی فوجی کاروائی کے خلاف ہیں۔
وزیر خارجہ جان کئیری کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اگر انہیں کانگریس کی حمائت حاصل نہ ہو سکی، تو اُس صورت میں انہین یہ حملہ کرنا چاہئے یا نہیں۔
ادھر ’نیوز میکس‘ نے معروف تجزیہ کار جان فریڈ مان کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر اوبامہ کے حامی چاہتے ہیں کہ دُنیا بھر کے لوگوں کو اُن کے اُس تحمُّل کی قدر کرنی چاہئے جس کا مظاہرہ انہوں نے شام کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے امریکی کانگریس سے اس کی حمائت حاصل کرنےکے لئے کیا ہے۔
وُہ کہتے ہیں کہ یہ نیرنگئی تقدیر ہوگی اگر صحافتی دُنیا میں محسوس کیا گیا کہ شام کے بارے میں انتظامیہ کے فیصلے کی حمائت کرنی چاہئے۔ کیا اس سے صدر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ اب اُنہیں ذرائع ابلاغ کے سابق بے باک مُنہ پھٹ ارکان کی حمائت حاصل ہے۔ بہت سے صحافی اب بھی اپنے آپ کو کوس رہے ہیں کہ انہوں نے دس سال قبل عراق پر حملہ کرنے کے خلاف کُھل کر اپنا ما فی ضمیر ادا نہیں کیا تھا۔
’ڈیٹرائٹ فری پریس‘ اخبار کہتاہے کہ بدھ کو سٹاک ہوم پہنچنے پر صدر اوبامہ نے کہا کہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال پرعالمی برادری کا جو ردّ عمل ہوگا وُہ بین الاقوامی برادری کے اعتبار کا امتحان ہوگا۔
اخبار نے ایسوسی ایٹد پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُن کا یہ بیان سویڈن کے وزیر اعظم فریڈرک رائن فیلڈ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران آیا۔ سٹاک ہوم سے مسٹر اوبامہ جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے روس جائیں گے، جہاں خیال ہے کہ وہ اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کے خلاف فوجی کاروائی کے لئے بین الاقوامی حمائت کی اپیل کریں گے۔۔
اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ کانگریس کے ارکان کے درمیان سنگین اختلاف پایا جاتا ہے اور رائے عامّہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی فوجی کاروائی کی مخالفت کر رہے ہیں، صدر اوبامہ کو منگل کے روز ایوان کے دو اعلیٰ ری پبلکن ارکان، سپیکر جان بینر، اور اکثریتی پارٹی کے لیڈر ایرک کینٹر کی حمائت حاصل ہوگئی۔ سینٹ کے اہم ڈیموکریٹک رکن سٹینی ہو ئر اور ایوان کی نمبر دو ڈیموکریٹک رکن نینسی پلوسی پہلے ہی اُن کی حمائت میں ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں ممتاز ڈیموکریٹک اور ریپبلکن لیڈروں نےایک قرارداد کے متن پر اتفاق کیا جس کی رو سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کی پاداش میں شام کے خلاف امریکہ فوجی کاروائی کرے گا۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ امریکی برّی فوج کو وہاں بھیجنے کو خارج از امکان قرار دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نےشام میں فوجی کاروائی کرنے کے منصوبے کے لئے کانگریس کی حمائت حاصل کرنے کا فیصلہ کرکے اپنی عہد صدارت کا سب سے بڑا خطرہ مول لیا ہے، کیونکہ انہیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے اس مشن کے لئے اندرون ملک اندر اور بیرونی ممالک کی طرف سے حمائت کو تقوئت ملے گی۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ انہیں یہ خطرہ ایوان کے ایسے عام ارکان سے ہے جنہیں اس کا اندازہ ہے کہ بہت سے امریکی مشرق وسطیٰ میں مزید امریکی فوجی کاروائی کےخلاف ہیں جس بنا پر وُہ اپنے لیڈروں کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پِو ریسرچ سنٹر نے ’واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی‘ کے رائے عامہ کے جو نتائج جاری کئے ہیں، ان کے مطابق امریکی عوام شام میں کسی امریکی فوجی کاروائی کے خلاف ہیں۔
وزیر خارجہ جان کئیری کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اگر انہیں کانگریس کی حمائت حاصل نہ ہو سکی، تو اُس صورت میں انہین یہ حملہ کرنا چاہئے یا نہیں۔
ادھر ’نیوز میکس‘ نے معروف تجزیہ کار جان فریڈ مان کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر اوبامہ کے حامی چاہتے ہیں کہ دُنیا بھر کے لوگوں کو اُن کے اُس تحمُّل کی قدر کرنی چاہئے جس کا مظاہرہ انہوں نے شام کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے امریکی کانگریس سے اس کی حمائت حاصل کرنےکے لئے کیا ہے۔
وُہ کہتے ہیں کہ یہ نیرنگئی تقدیر ہوگی اگر صحافتی دُنیا میں محسوس کیا گیا کہ شام کے بارے میں انتظامیہ کے فیصلے کی حمائت کرنی چاہئے۔ کیا اس سے صدر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ اب اُنہیں ذرائع ابلاغ کے سابق بے باک مُنہ پھٹ ارکان کی حمائت حاصل ہے۔ بہت سے صحافی اب بھی اپنے آپ کو کوس رہے ہیں کہ انہوں نے دس سال قبل عراق پر حملہ کرنے کے خلاف کُھل کر اپنا ما فی ضمیر ادا نہیں کیا تھا۔
’ڈیٹرائٹ فری پریس‘ اخبار کہتاہے کہ بدھ کو سٹاک ہوم پہنچنے پر صدر اوبامہ نے کہا کہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال پرعالمی برادری کا جو ردّ عمل ہوگا وُہ بین الاقوامی برادری کے اعتبار کا امتحان ہوگا۔
اخبار نے ایسوسی ایٹد پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُن کا یہ بیان سویڈن کے وزیر اعظم فریڈرک رائن فیلڈ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران آیا۔ سٹاک ہوم سے مسٹر اوبامہ جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے روس جائیں گے، جہاں خیال ہے کہ وہ اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کے خلاف فوجی کاروائی کے لئے بین الاقوامی حمائت کی اپیل کریں گے۔۔