رقبے اور آبادی کے لحاظ سے نیو ہیمپشائر چھوٹی سی ریاست ہے۔ لیکن جب اس ریاست میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو پورے ملک کی توجہ اسی طرف ہوتی ہے۔ اور انتخابی نتائج کی گونج وائٹ ہاؤس تک پہنچ جاتی ہے۔ بیشتر ریاستوں میں، جو ووٹر کسی مخصوص پارٹی کے ساتھ رجسٹر ہوتے ہیں، صرف وہی پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ لیکن کچھ ریاستوں میں، جیسے نیو ہیمپشائر میں، جو ووٹر کسی پارٹی کے ساتھ رجسٹر نہ ہوں، انہیں بھی ووٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
کینڈس نیلسن انتخابات کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’پرائمری کے سیزن کا مقصد یہ ہے کہ اُمیدوار خود کو ووٹروں میں متعارف کر ا سکیں، ووٹرز کو اُمیدواروں کے بارے میں پتہ چل جائے، اور تین یا چار مہینے کی مدت میں وہ اُمیدواروں کے بارے میں غور و خوض کر سکیں۔‘‘
اُمیدوار ہمیشہ سے ذاتی حیثیت میں انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ سیاسی پنڈت اسے خوردہ سیاست کا نام دیتے ہیں۔ اُمیدوار ایک قصبے سے دوسرے قصبے میں جاتے ہیں، لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں، جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور دوسرے ذرائع سے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔ اور اُمیدوار ان رابطوں کے ذریعے مختلف مسائل کے بارے میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔
آیووا اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر اسٹیفن شمٹ کے مطابق ’’یہ ایک اسٹیج کی مانند ہے یا ایک کنونشن سینٹر کی طرح ہے جہاں اُمید وار آتے ہیں اور اپنا اپنا سامان بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ہم انہیں ایسا کرنے دیتے ہیں۔ جو لوگ بہت سا سامان فروخت کرتےہیں، وہ کامیاب رہتے ہیں۔‘‘
اُمیدوار دوکاندار ہیں، اور ووٹرز خریدار ہیں۔ جو لوگ سیاسی اجتماعات میں، جیسے انتخابی مہموں کے جلسوں میں جاتے ہیں، وہ صرف یہ نہیں چاہتے کہ انہیں ہاتھ ملانے کا موقع ملے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے سیاسی رپورٹر، فل ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ’’وہ ان پروگراموں میں جاتے ہیں۔ کافی شاپس ان سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ اُمیدواروں سے ملنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، اور ان سے بڑے اہم اور ٹھوس سوالات پوچھتے ہیں۔‘‘
روایتی طور پر پرائمری انتخابات اور کاکسوں کا عرصہ تین یا چار مہینے ہوا کرتا تھا۔ لیکن حالیہ صدارتی انتخابات میں یہ عرصہ مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستیں اب اس اُمید پر کہ وہ ملک میں زیادہ نمایاں ہو جائیں گی اور صدارتی انتخاب میں ان کی پارٹی کے اُمید وار کی نامزدگی میں انہیں زیادہ اختیار مل جائے گا، ریاستیں پرائمری اور کاکس جلدی کرانے لگی ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام ریاستیں اپنے پرائمری انتخابات اور کاکس ایک ہی روز منعقد کریں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر، مارک روم کہتے ہیں کہ ’’پورے ملک میں ایک روز پرائمری انتخاب کا اصل فائدہ یہ ہے کہ پورے ملک میں صدارتی اُمیدواروں کے انتخاب میں تمام لوگوں کو برابر کا موقع ملے گا۔ یہ اچھی بات ہو گی۔ ملک گیر پرائمری کا نقصان یہ ہے کہ اس طرح وہ اُمیدوار فائدے میں رہیں گے جنھوں نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا ہے اور انتخابی دوڑ شروع ہوتے وقت، جن کی مقبولیت سب سے زیادہ تھی۔‘‘
پرائمری انتخابات اور کاکسوں میں، کسی صدارتی اُمیدوار کے لیے ڈالے جانا والا ووٹ در اصل اس اُمیدوار کی سیاسی پارٹی کے نیشنل کنونشن میں جانے والے ڈیلیگیٹس یا نمائندوں کے لیے ہوتا ہے۔ یہ کنونشن آخری ووٹ سے تقریباً دو مہینے قبل ہوتا ہے۔ جس اُمیدوار کے نمائندوں یا ڈیلیگیٹس کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ نومبر 2012ء کے عام انتخاب کے لیے پارٹی کا اُمیدوار نامزد ہو جاتا ہے۔ اس انتخاب کے نتائج سے یہ طے ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا اگلا مکیں کون ہوگا۔