امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران دنیا بھر کی باہمت خواتین کے لیے اپنے سالانہ انٹر نیشنل ویمن آف کریج ایوارڈز پیش کیے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور خاتون اول جل بائیڈن نے تقریب کی میزبانی کی۔ اس سال کے ایوارڈز افغانستان، بنگلہ دیش، ایران ،بیلا روس، بوزنیا اور ہرزیگوینا، میانمار، کیوبا، ایکوا ڈور، گیمبیا، جاپان، مراکش، نکارا گوا اور یوگنڈا کی خواتین کو دیے گئے۔
بلنکن نے تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کہا، "ان خواتین اور دنیا بھر میں ان جیسی بہت سی سرگرم خواتین کے لیے، ہمت ایک دانستہ اور روزانہ کا انتخاب ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ،"خواتین اور لڑکیاں ایسی ہی بہادری کا مظاہرہ ان جگہوں پر کرتی ہیں جو تنازعات اور عدم تحفظ کی لپیٹ میں ہیں، اس کے باوجود کہ انہیں اس تشدد سے بے تحاشہ نقصان پہنچتا ہے۔"
محکمہ خارجہ کے مطابق یہ ایوارڈز 2007 میں شروع کیے گئے تھے اور ان خواتین کو پیش کیے جاتے ہیں "جنہوں نے امن، انصاف، انسانی حقوق، صنفی انصاف اور مساوات اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے غیر معمولی جرات، طاقت اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔"
اس سال اعزاز پانے والوں میں بنگلہ دیش کی فوزیہ کریم فیروز شامل تھیں۔ انہیں سپریم کورٹ کی ایک وکیل کے طور پر ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ایک عرصے تک پسماندہ گروپس کے حقوق کے لیے جدو جہد کر چکی ہیں۔
افغانستان کی بینفشہ یعقوبی ان باہمت خواتین میں شامل ہیں جنہیں سال 2024 کا ویمن آف کریج ایوارڈ پیش کیا گیا۔ انہیں یہ ایوارڈ تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے پر دیا گیا۔ انہوں نے ایسی خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے برسوں تک ایک وکیل کے طور پر کام کیا ہے۔
بینفشہ یعقوبی نے افغانستان میں بصارت سے محروم افراد کو تعلیم اور بحالی فراہم کرنے کے لیے 2008 میں اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک تنظیم، راہیاب کی بنیاد رکھی۔ معذوری کے حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے انہوں نے روزانہ لائیو ٹیلی ویژن شو کی میزبانی کی اور بعد میں افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کے کمشنر کے طور پر کام کیا، جہاں انہوں نے بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم پر توجہ دی۔
لندن میں مقیم ایران کے انسانی حقوق کی ایک علمبردار فریبہ بلوچ ان خواتین میں شامل تھیں جنہیں 2024 کا ویمن آف کریج ایوارڈ دیا گیا۔ ان کا تعلق ایران کے صوبے سیستان بلوچستان سے ہے اور وہ ایران کے پسماندہ بلوچی نسلی گروپ کی رکن ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق اور سیستان بلوچستان میں انسانی حقوق کے اس بحران کے بارے میں کھلم کھلا بولتی ہیں، جو حکومتی تشدد، پھانسیوں اور تعصب پر مبنی نظام سے متاثر ہوا ہے۔
ان کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اور انہیں دھمکانے کی کوشش میں، ایرانی حکام نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے اور ان کے بیٹے اور بھائی کو ایران میں حراست میں لے لیا ہے۔ پھر بھی، محترمہ بلوچ کا خیال ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مزاحمت ہے، اور وہ اپنی سرگرمیوں پر قائم ہیں۔
محترمہ بلوچ ایرانی خواتین کے حقوق کی مسلسل وکالت کر رہی ہیں اور ایرانی حکومت کی صنفی، نسلی اور فرقے کی بنیاد پر تعصب پر مبنی سلوک کی طرف مسلسل توجہ مبذول کرا رہی ہیں۔
ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں نکاراگوا سے تعلق رکھنے والی نو خواتین بھی شامل ہیں جو گزشتہ سال وہاں رہائی پانے والے سیاسی قیدیوں کے ایک گروپ میں شامل تھیں۔ محکمہ خارجہ نے کہا کہ یہ سر گرم کارکن " ایک جابر حکومت کے دور میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
بوسنیا اور ہرزیگوینا سے تعلق رکھنے والی اجنا جوسیچ کو جنگ کے دوران جنسی تشدد کے واقعات سے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں منتخب کیا گیا تھا۔
کیوبا سے، مارتھا بیٹریز روک کابیلو کو اپنے ملک میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی تحریکوں کی قیادت کرنے کے اعتراف میں نوازا گیا۔
Agather Atuhaire کو یوگنڈا میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے ان کی خدمات پر اعزاز دیا گیا ہے۔