|
کاروباروں میں مسابقت کے فروغ اور اجارہ داریوں کے خاتمے کا کام کرنے والے امریکی حکام ، جنہیں ریگولیٹر کہا جاتا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ وفاقی جج گوگل کو حصوں میں بانٹنے کا حکم جاری کرے تاکہ ڈیجیٹل دنیا کی اس بڑی کمپنی کی اجارداری کو ختم کیا جا سکے۔
عدالت نے گوگل سے متعلق ایک مقدمے میں یہ کہا تھا کہ اس نے گزشتہ عشرے کے دوران بڑے پیمانے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہے۔
کمپنی کو حصوں میں بانٹنے کی تجویز امریکہ کے محکمۂ انصاف کی جانب سے بدھ کو 23 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز میں سامنے آئی ہے جس میں گوگل کے سب سے اہم ویب براؤزر 'کروم' کی فروخت اور اس کے اینڈرائیڈ سسٹم پر پابندیاں لگانا شامل ہے جو گوگل کے سرچ انجن کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔
اینڈرائیڈ گوگل کا آپریٹنگ سسٹم ہے جو زیادہ تر اسمارٹ فونز میں استعمال ہوتا ہے۔
محکمہ انصاف کے وکلا نے فائل کی جانے والی درخواست میں کہا ہے کہ کروم کو فروخت کرنے سے گوگل کا ویب سرچ پر کنٹرول مستقل طور پر ختم ہو جائے گا اور ویب سرچ میں اس کی حریف کمپنیوں کی رسائی بہتر ہو جائے گی۔
اگرچہ ریگولیٹرز نے اینڈرائیڈ کو بیچنے کا مطالبہ نہیں کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ جج کمپنی پر یہ واضح کر دے کہ بد انتظامی کے شواہد ملنے پر اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
دستاویز میں تجویز کیے جانے والے سخت اقدامات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ریگولیٹرز چاہتے ہیں کہ گوگل کو امریکی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا کے اگست میں سنائے جانے والے فیصلے کے بعد سزا دی جانی چاہیے جس نے گوگل کو ایک اجارہ دار کمپنی قرار دیا تھا۔
اجارہ داری کاروبار کی ایک ایسی صورت حال کو کہا جاتا ہے جس میں ایک طاقت ور کمپنی مارکیٹ کے زیادہ تر حصے پر اپنا کنٹرول قائم کر لے اور دیگر کمپنیاں اس کے اس کے مفادات کے سامنے بے بس ہو جائیں۔
گوگل پر دائر اس مقدمے کی سماعت اگلے سال اپریل میں شروع ہو گی اور توقع ہے کہ جج امیت مہتا یوم مزور سے قبل اپنا فیصلہ جاری کر دیں گے۔
اگر جج مہتا حکومت کی سفارشات قبول کر لیتے ہیں تو گوگل کو اپنا 16 سالہ کروم حتمی فیصلہ سنائے جانے کے چھ ماہ کے اندر فروخت کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کمپنی کسی بھی ممکنہ سزا کے خلاف اپیل میں جائے گی اور گزشتہ چار سال سے جاری یہ مقدمہ مزید طول کھینچے گا۔
اس کے علاوہ محکمہ انصاف یہ بھی چاہتا ہے کہ جج ایپل کے آئی فون اور دیگر ڈیوائسز کے ساتھ گوگل کے سرنچ انجن کے اربوں ڈالر کے سودے پر بھی پابندی عائد کرے، گوگل کے آرٹیفیشل انٹیلی جینس سسٹم کو بھی مسابقت کے نظام میں لائے اور گوگل سرچ انجن کے تجارتی پہلو کو شفافیت کے دائرے میں لانے کا حکم جاری کرے۔
گوگل کے قانونی امور کے سربراہ کیٹ واکر نے محکمہ انصاف پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی بنیاد پرستانہ انداز میں دخل اندازی کے ایجنڈے سے امریکیوں اور امریکہ کی عالمی ٹیکنالوجی کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے اپنے ایک بلاگ میں کہا ہے کہ ان اقدامات سے شخصی رازداری کو نقصان پہنچے گا اور گوگل کی آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی بھی متاثر ہو گی۔
محکمہ انصاف کی سفارشات میں کہا گیا ہے گوگل کے طرز عمل کی وجہ سے دوسری کمپنیوں کو مساوی مسابقت کا موقع نہیں مل رہا اور گوگل غیر قانونی طور پر حاصل کردہ فوائد کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جس کا علاج یہ ہے کہ گوگل کو یہ فائدے حاصل کرنے سے روکنا اور اس خلا کو بھرنا ہے جو گوگل اور دوسری کمپنیوں کے درمیان موجود ہے۔
اگر عدالت، محکمہ انصاف کی ان تجاویز کو قبول کر لیتی ہے تو کمپنی کا کاروبار ختم ہونے کا خطرہ ہے جو اس سال 300 ارب ڈالر سے زیادہ آمدنی کی توقع کر رہی ہے۔
اگرچہ گوگل کے خلاف یہ مقدمہ ابتدائی طور پر ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں دائر کیا گیا تھا اور کینٹر نے اس کیس کی نگرانی کی تھی جس کا نتیجہ جج مہتا کے فیصلے کی شکل میں سامنے آیا۔ انہوں نے فیڈرل ٹریڈ کمشن کی سربراہ لینا خان کے ساتھ مل کر بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور اپنی چار سالہ مدت کے دوران انہوں نے اپیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کئی کاروباری معاہدوں کو طے پانے سے روکنے کی کوشش کی۔
ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی کو توڑنے سے گوگل تباہ ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے اس کا کوئی متبادل نہیں بتایا۔ پچھلے مہینے انہوں نے کہا تھا کہ آپ اسے توڑے بغیر کیا کر سکتے ہیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ عمل زیادہ منصفانہ ہو۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)