ہرمین کائن جس حد تک چلے گئے ہیں، وہ باقی دوسر ے تمام امیدواروں سے زیادہ ہے ۔ ریپبلیکن امیدواروں میں ، ان کی شخصیت زیادہ مشہور نہیں تھی لیکن چند مہینے پہلے جب انھوں نے یہ کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے ، تو وہ یہ بات پسند نہیں کریں گے کہ کوئی مسلمان ان کی انتظامیہ میں کام کرے، تو لوگ چونک گئے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اس طرح پریشانی محسوس ہو گی۔’’مجھے پریشانی محسوس ہوگی کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان پُر امن ہوتے ہیں، اور بعض مسلمان ایسے بھی ہیں جو عسکریت پسند ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں ہلاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
کائن نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ مسلمانوں کے مخالف ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلمان ان کی انتظامیہ میں کام کرنے کی درخواست دیتا ہے تو وہ اس کے پس منظر کی جانچ کے لیے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مختلف پیمانہ استعمال کریں گے۔ایک اور ریپبلیکن امیدوار نیوٹ گنگریچ نے کہا قومی سکیورٹی کے لیئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی وفاداری کے بارے میں خصوصی طور پر جانچ پڑتال کی جائے ۔
ناقدین کہتے ہیں کہ اس قسم کے خیالات امتیازی سلوک کی طرح ہیں۔ مسلم پبلک افیئرز کونسل کے حارث ترین کہتے ہیں کہ کائن اور گنگریچ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں۔
’’علاج معالجے کی سہولتوں کے بارے میں، قومی سلامتی کے بارے میں، امیگریشن کے مسئلے پر، ان کے پاس کوئی تعمیر ی تجویز نہیں ہے ۔ لہٰذا ان کی کوشش یہ ہے کہ ایسے مسئلے کو استعمال کیا جائے جس کے بارے میں عام امریکی کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ لوگوں میں تجسس کا جذبہ پیدا کیا جائے تا کہ وہ انہیں ووٹ دینے کو تیار ہو جائیں۔‘‘
لبرل ویب سائٹ تھنک پراگریس نے کہا کہ کہ مئی میں لوگوں نے گوگل پر جن امیدوار وں کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی، ان میں کائن بھی شامل تھے۔
تا ہم تمام ریپبلیکن امیدواروں نے مسلمانوں کے بارے میں اس قسم کے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں میں مِٹ رومنی کو اب تک دوسرے امیدواروں پر سبقت حاصل ہے ۔ انھوں نے صدارتی مباحثے میں کہا کہ امریکہ مذہبی رواداری کے اصول پر قائم کیا گیا تھا۔ رومنی کا تعلق مورمان فرقے سے ہے جنہیں بہت سے ایوانجیلیکل کرسچیئن سرے سے عیسائی ہی نہیں مانتے۔
ترین کہتے ہیں کہ ریاست نیو ہمپشائر میں امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف خیالات کے سی این این پر نشر کیے جانے کا اثر یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف جذبات کو زیادہ آسانی سے قبول کیا جانے لگے گا۔’’ہمیں خاصی پریشانی ہے کیوں کہ اس قسم کے خیالات امریکہ میں ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ اب انہیں سی این این پر ،قومی سطح پر ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان عوامی مباحثے میں ٹیلیویژن پر دکھایا جا رہا ہے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ یہ معاملہ اقلیتی حلقوں سے نکل کر اب عام امریکیوں کے گھروں میں پہنچ گیا ہے۔‘‘
ایسے شواہد موجود ہیں کہ ایسا واقعی ہو رہا ہے۔ کونسل آن امریکن۔اسلامک ریلیشنز کی طرف سے اسلام کے بارے میں فرضی خوف یا اسلاموفوبیا کے بارے میں ایک سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ ایک تہائی امریکی ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ اسلام کے پیروکاروں کو صدارتی مقابلے میں امیدوار بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
اور مسلم پبلک افیئر ز کونسل، اور امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق، امریکہ کی 25 ریاستوں کی مقننہ میں ایسے بل پیش کیے گئے ہیں جن کا مقصد امریکی عدالتوں میں شرعی قوانین کو ممنوع قرار دینا ہے ۔
امریکہ کا ارتقا تارکین وطن کا رہینِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکیوں کے خلاف جذبات ابھرتے اور ختم ہوتے رہے ہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں مشرقِ وسطیٰ کے ماہر اسٹیو گرینڈ کہتے ہیں۔’’بد قسمتی سے امریکہ میں یہ روایت بڑی قدیم ہے کہ انجانی چیزوں سے اور ان لوگوں سے جو ہم سے مختلف نظر آتے ہوں، خوف کھایا جائے ۔ لیکن پھر ہم ان لوگوں سے مانوس ہو جاتے ہیں اور انہیں سمجھنے لگتے ہیں اور یہ لوگ امریکی زندگی اور کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ عمل تیزی سے مکمل ہو جاتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہو رہا ہے اور انہیں قبول کرنےکاعمل طویل ہو گیا ہے۔