امریکی عہد ے داروں کا کہنا ہے کہ یہ دس افراد روس کی فارن انٹیلی جنس سروس(SVR) کے لیے کام کر رہے تھے اور امریکہ میں اس طرح رہ رہے تھے جسے ڈیپ کَور کہا جاتا ہے ۔ڈیپ کَور سے کیا مراد ہے، ہارورڈ یونیورسٹی کے مارشل گولڈ مین بتاتے ہیں’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے خود کو معاشرے کا جزو بنا لیا تھا۔ یہ لوگ بالکل عام امریکیوں کی طرح زندگی گذار رہے تھے۔ وہ کام کرتے تھے، اسکول جاتے تھے، غرض کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس سے وہ اپنے ہمسایوں سے مختلف نظر آئیں۔‘‘
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے ذمے کام یہ تھا کہ وہ امریکہ میں پالیسی ساز حلقوں کے ساتھ رابطے قائم کریں اور پھر انٹیلی جینس رپورٹیں ماسکو بھیجیں۔ ان لوگوں کو امریکی فوج، خارجہ پالیسی کے مسائل اور امریکی کانگریس کے امور کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کرنی تھیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کو شبہ ہے کہ یہ مبینہ روسی ایجنٹ اپنے فرائض ادا کر سکے ہوں گے۔ ایسے ہی ایک ماہر چارلس پِنک ہیں جو جارج ٹاؤن گروپ میں پارٹنر ہیں۔
یہ فرم سکیورٹی کے معاملات کی ماہر ہے۔ وہ کہتے ہیں’’روسیوں نے ان لوگوں پر کافی پیسہ اور وقت خرچ کیا۔ انہیں تربیت دی اور یہاں بھیجا۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف جو رپورٹ درج کرائی گئ ہے ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ زیادہ حاصل نہیں کر سکے۔ان کے خلاف جاسوسی کا الزام نہیں لگایا گیا ہے ۔ ان کے خلاف الزام یہ ہے کہ انھوں نے خود کو غیر ملکی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے رجسٹر نہیں کرایا تھا اور انھوں نے منی لانڈرنگ کی یعنی غیر قانونی طور پر حاصل کیے ہوئے پیسے کو قانونی شکل دی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو انہیں جس کام کے لیے بھیجا گیا تھا وہ اسے انجام نہیں دے سکے، یا پھر ایف بی آئی انہیں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑ نہیں سکی۔‘‘
بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے اسٹیون پائفر کو بھی شبہ ہے کہ جاسوسوں کا یہ ٹولہ اپنا کام موئثر انداز سے انجام دے سکا ہے۔وہ کہتے ہیں’’ان میں سے کوئی ایک بھی فرد امریکی حکومت کے کسی محکمے میں ملازمت حاصل نہیں کر سکا اور اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکا ہو۔اسی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محکمۂ خزانہ ان کے خلاف بلا اعلان کسی غیر ملکی طاقت کے لیے کام کرنے کا معمولی سا الزام لگائے ۔‘‘
کئی روسی عہدے داروں نے ان گرفتاریوں کے وقت کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ گرفتاریاں صدر اوباما اور روسی صدر مدویدیف کی واشنگٹن میں ملاقات کے چند روز بعد ہوئیں جن میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیاگیا تھا۔
فائفر کی پیش گوئی ہے کہ جاسوسی کے اس مبینہ واقعے سے امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں اس واقعے سے بہت معمولی سے دھچکا لگے گا۔ روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کے بعض پہلوؤں کے بارے میں نا خوش ہے کہ اس کا اعلان اس وقت کیوں کیا گیا ہے ۔ تو اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کی چیز کا اعلان کرنے کے لیے کوئی بھی وقت اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ 18 مہینوں کے دوران امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں اتنی زیادہ پیش رفت ہو چکی ہے کہ اس واقعے سے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مبینہ روسی جاسوسوں کی گرفتاری سے ہم سرد جنگ کے دور میں واپس چلے گئے ہیں۔ لیکن چارلس پنک اس خیال سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں’’آپ میڈیا پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا جاسوسی سرد جنگ کے زمانے میں شروع ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جاسوسی ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ اسی لیے اسے دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ کہتے ہیں۔ تو اگر جاسوسی دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے، تو جاسوسوں کو پکڑنا دنیا کا تیسرا قدیم ترین پیشہ قرار پائے گا۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔‘‘
پنک کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہم روسی جاسوسوں کا سراغ لگاتے رہیں گے، اور یہ امید کریں گے کہ ہمارے جاسوس ان کے ہاتھ نہ لگیں۔