اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے قائم مقام سفیر رچرڈ ملز نے بائیڈن انتظامیہ کے اس عزم کو دُہرایا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ امید رکھتی ہے کہ فریقین کے درمیان متزلزل اعتماد آہستہ آہستہ بحال ہو گا۔
امریکی سفیر رچرڈ ملز نے منگل کو سلامتی کونسل کے آن لائن اعلیٰ سطح کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی انتظامیہ کے تحت امریکہ کی پالیسی ہو گی کہ اس دو ریاستی حل کی حمایت کی جائے جس پر فریقین راضی ہوں۔
نئی انتظامیہ کی پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسی ہے کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیل بھی امن اور سلامتی سے رہے۔ اسرائیل یا فلسطینیوں پر امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
ایک سال قبل، ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری کے اسی ہفتے میں مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی اس حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا جس کی پہلے سے توقع کی جا رہی تھی۔
فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کو یہ کہتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا تھا کہ یہ اسرائیل کی بھر پور انداز میں حمایت کرتی ہے اور فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست فراہم نہیں کرتی جس میں مشرقی یروشلم ان کا دارالحکومت ہو۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ کا سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا جس سے فلسطینی مزید ناراض ہو گئے تھے۔
بائیڈن نے اس اقدام پر تنقید کی تھی تاہم یہ نہیں کہا تھا کہ آیا وہ اس فیصلے کو تبدیل کریں گے۔
اپنی انتخابی مہم میں جو بائیڈن نے مشرقی یروشلم میں امریکی قونصلیٹ کھولنے کی تجویز دی تھی تاکہ فلسطینیوں کے ساتھ رابطے رکھے جائیں۔
رچرڈ ملز نے دہرایا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ قابلِ بھروسہ تعلقات بحال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اسی طرح کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ بھی چاہتی ہے۔
فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ کو ثالث یا امن کا سہولت کار سمجھنا ترک کر دیا تھا۔ فلسطین کے وزیرِ خارجہ ریاض المالکی نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ چار برسوں نے ہمارے اجتماعی عزم کا امتحان لیا ہے۔
ریاض المالکی نے کہا کہ اب وقت ہے کہ گزشتہ انتظامیہ نے جو نقصان پہنچایا اس کا مداوا کیا جائے۔
ان کے مطابق وہ ٹرمپ انتظامیہ کے غیر قانونی اور معاندانہ اقدامات واپس لیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر بائیڈن معاشی ترقی کے لیے امریکی مالی امداد اور انسانی فلاح کے وہ پروگرام بھی بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فلسطینی عوام کو فائدہ پہنچائیں۔ اسی طرح صدر چار سال پہلے بند ہونے والے سفارتی مشن کو بھی دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔
ستمبر 2018 میں سابق صدر ٹرمپ نے حکم دیا تھا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا واشنگٹن ڈی سی میں قائم دفتر بند کیا جائے۔
اس وقت کے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
امریکی سفیر رچرڈ ملز نے اجلاس میں گفتگو کے دوران مزید کہا کہ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ امریکہ اسرائیل کے لیے اپنی بھر پور حمایت پر بھی قائم رہے گا۔
انہوں نے فریقین کو خبردار کیا کہ علاقوں کو الگ کرنے، آباد کاری، فلسطینیوں کے گھروں کو گرانے، تشدد کو ہوا دینے اور دہشت گردی جیسے جرائم میں گرفتار افراد کو رعایت دینے جیسے یک طرفہ اقدامات سے گریز کریں جو دو ریاستی حل کے حصول کو مشکل بنا دیں۔
اسرائیل کے نمائندے گیلارڈ اردن نے کہا کہ اسرائیل نے تنازعے کے قابل عمل حل کے لیے ہر بار مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
ان کے بقول اسرائیل متعدد بار کہہ چکا ہے کہ قیام امن تب ہی ممکن ہے جب دوسرا فریق بھی اس کے لیے تیار ہو۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بحرین، متحدہ عرب امارات ، مراکش اور سوڈان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی بحالی میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔
سفیر رچرڈ ملز نے کہا کہ نئی انتظامیہ بھی دوسرے ممالک پر زور دے گی کہ اس کی پیروی کریں۔ تاہم تعلقات کے یہ معاہدے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا متبادل نہیں ہیں۔