امریکہ نے کہا ہے کہ وہ 2015 میں تہران کے جوہری ترقیاتی پروگرام کو محدود کرنےکے معاہدے کی بحالی کے لیے یورپی یونین کی ثالثی میں طے پانے والی حتمی تجویز پر ایران کے ردِعمل کا جائزہ لے رہا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کو کہا کہ واشنگٹن کو یورپی یونین کے توسط سے ایران کی دستاویز موصول ہوئی ہے اور وہ اپنے یورپی اتحادیوں کو امریکی ردعمل سے آگاہ کرے گا۔
تہران میں سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے منگل کو اطلاع دی تھی کہ ایرانی مذاکرات کاروں نے اپنا جواب یورپی یونین کو جمع کرا دیا ہے اور ان انتباہات کے باوجود کہ مزید مذاکرات نہیں ہوں گے ، یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اب بھی یورپی یونین کی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔
نیڈ پرائس کا کہنا تھا " ہمیں جوہری معاہدے کی بحالی سےمتعلق یورپی یونین کے مجوزہ حتمی متن پر ایران کے تبصرے موصول ہوئے ہیں اور ہم ان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یورپی یونین اور اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت میں مصروف ہیں۔"
اس بارے میں کہ آیا ایران کا جواب سنجیدہ ہے نیڈ پرائس نے کہا کہ "میں پہلے سے اس کا اندازہ نہیں لگانا چاہتا، کیوں کہ ہم ابھی اس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کو جو کچھ فراہم کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمیں فراہم کیا گیا ہے، اسے سمجھنے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔ لیکن ہمیں امید ہے ایران سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا جو ہم نے اب تک ان کی جانب سے نہیں دیکھی۔"
SEE ALSO: جوہری معاہدے کی بحالی، ایران کا امریکہ سے لچک دکھانے کا مطالبہایران کی سرکاری ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ " فریقین کے درمیان اختلافات تین مسائل پر ہیں ، جن میں سے دو معاملات میں امریکہ نے زبانی طور پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اسے متن میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ تیسرا مسئلہ معاہدے کے تسلسل کی ضمانتوں سے منسلک ہے ، جس کا انحصار امریکہ کی حقیقت پسندی پر ہے ۔
ایجنسی نے خبر دی کہ،" ایران نے ویانا معاہدے کے مسودے کے متن پر ایک تحریری جواب جمع کرا دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر امریکہ نے جواب میں حقیقت پسندی اور لچک کا مظاہرہ کیا تو ایک معاہدہ طے پاجائے گا۔"
ارنا نے اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کے حوالے سے کہا تھا کہ "امریکی فریق نے تہران کی طرف سے کیے گئے دونوں مطالبات کو زبانی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔"
واضح رہے کہ برطانیہ ، چین ، فرانس اور جرمنی نے اگست کے شروع میں ایک ماہ کے وقفےکے بعد جوہری معاہدے پر ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کیے تھے۔ امریکہ ان مذاکرات میں بالواسطہ طور پرشرکت کرتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ تہران نے اپنا جواب جمع کرایا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے 2015 کے جوہری معاہدے کے باضابطہ عنوان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہم اس کا مطالعہ کر رہے ہیں اور JCPOA کے دیگر شرکاء اور امریکہ سے مشاورت کر رہے ہیں۔"
انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ جواب میں کیا کچھ شامل ہے۔
جوہری معاہدےکی بحالی کے امکان نے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی لانے میں مدد کی ہے۔
یہ تاریخی معاہدہ 2018 میں تب سے تعطل کا شکار ہے جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور ایران کے خلاف معیشت کو مفلوج کرنے والی اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔
ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے اہم ممالک گزشتہ ہفتے بوریل کی جانب سے پیش کیے جانے والے حتمی مسودے پر تہران کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
ارنا نے ایک ایرانی سفارت کار کے حوالے سے ، جس کانام ظاہر نہیں کیا ، کہا کہ یورپی یونین کی تجاویز اس صورت میں قابل قبول ہیں اگر وہ ایران کو پابندیوں اور تحفظات سے منسلک متعدد نکات کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کےساتھ زیر التوا مسائل پر یقین دہانیاں فراہم کریں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ موادخبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس' اور' اے ایف پی' سے لیا گیا ہے ۔