امریکہ کی خفیہ نیوکلیئر حکمتِ عملی کسی ایک ملک پر مرکوز نہیں: وائٹ ہاؤس

روس کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ اس تصویر میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ایک میزائل کو لانچر پر لوڈ کیا جا رہا ہے۔ 2 فروری 2024

    • وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس کی خفیہ جوہری حکمت عملی کسی ایک ملک یا کسی ایک خطرے پر مرکوز نہیں ہے۔
    • نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ اپنی جوہری حکمت عملی اب روس سے چین کی جانب منتقل کر رہا ہے۔
    • امریکی انٹیلی جس کے مطابق چین 2030 تک اپنی جوہری ہتھیاروں کی تعداد 500 سے بڑھا کر ایک ہزار تک لے جا سکتا ہے۔
    • وس کے پاس اس وقت تقریباً 4000 جوہری وار ہیڈ موجود ہیں۔
    • آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیرل کمبال کا کہنا ہے کہ جوہری حکمت عملی میں تبدیلی کا مرحلہ 2030 سے قبل نہیں آئے گا۔

    وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس سال صدر جو بائیڈن نے جس خفیہ جوہری اسٹریٹجک منصوبے کی منظوری دی تھی وہ کسی ایک ملک یا کسی مخصوص خطرے پر مرکوز نہیں ہے۔

    اس سے قبل نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے اپنی جوہری مزاحمت کی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دیا ہے اور پہلی بار اسے چین کے وسیع ہوتے ہوئے جوہری ذخائر کی جانب مرکوز کیا ہے۔

    امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ امریکی جوہری ہتھیاروں کی حکمت عملی اور اس کا انداز وہی ہے جیسا کہ امریکی انتظامیہ کے 2022 کے نیوکلیئر پوسچر ریویو میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں توجہ روس سے ہٹا کر چین کی طرف مبذول نہیں کی گئی۔

    نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے کبھی بھی یہ اعلان نہیں کیا کہ بائیڈن نے نظرثانی شدہ جوہری حکمت عملی کی منظوری دی ہے، جس کا عنوان ’نیوکلیئر ایمپلائمنٹ گائیڈنس‘ ہے، تاہم یہ توقع ہے کہ بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے کانگریس کو اس نظرثانی سے متعلق ایک نوٹیفیکشن بھیجا جائے گا۔

    SEE ALSO: پاکستان، بھارت سمیت دنیا کے 9 جوہری ملکوں نے پچھلے سال اپنے پروگراموں پر 91.4 ارب ڈالر خرچ کیے

    اخبار نے کہا ہے کہ انتظامیہ کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے اپنی حالیہ تقاریر میں جوہری حکمت عملی سے متعلق اشارے کیے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ جوہری حکمت عملی پر ہر چار سال کے بعد نظرثانی کی جاتی ہے۔

    نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سیویٹ نے کہا کہ موجودہ انتظامیہ نے، اس سے پہلے کی چار انتظامیہ کی طرح، نیوکلیئر پوسچر ریویو اور نیوکلیئر ویپن ایمپلائمنٹ پلاننگ گائیڈنس جاری کیں ہیں۔

    ’ اگرچہ گائیڈنس کا مخصوص متن کلاسیفائیڈ ہے، لیکن اس کی موجودگی کسی بھی طرح سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس سال کے شروع میں جاری کی جانے والی گائیڈنس کسی ایک ادارے، ملک یا خطرے کا جواب نہیں ہے‘۔

    SEE ALSO: امریکہ ، چین، بھارت ، پاکستان سمیت نو ایٹمی ملکوں کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ جاری

    آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیرل کمبال کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جینس کے اندازوں کے مطابق چین 2030 تک اپنی جوہری ہتھیاروں کی تعداد 500 سے بڑھا کر ایک ہزار تک لے جا سکتا ہے اور روس کے پاس اس وقت تقریباً 4000 جوہری وار ہیڈ موجود ہیں تو جوہری حکمت عملی کے حوالے سے یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا محرک ہے۔

    کمبال نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے ایک امریکی عہدے دار، وائٹ ہاؤس کے ہتھیاروں کے کنٹرول، تخفیف اسلحہ اور جوہری عدم پھیلاؤ کی سینئر ڈائریکٹر پرینی ویڈی کے جون کے بیان کا حوالہ دیا۔

    کمبال کا کہنا تھا کہ ان کے تبصروں کے مطابق، امریکہ کی حکمت عملی چین اور روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ لیکن اگر چین جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی اپنی موجودہ رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اگر روس ’ نیوسٹارٹ‘ معاہدے کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، تو مستقبل میں امریکہ کو بھی کسی وقت اپنے ہتھیاروں کے ذخائر میں رد و بدل پر غور کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ وہ مقام، جس کے متعلق موجودہ انتظامیہ سوچتی ہے کہ اس طرح کی تبدیلوں پر غور کرنا چاہیے، 2030 یا اس کے کچھ عرصے بعد تک نہیں آئے گا۔

    (اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)