امریکہ میں کرونا وبا کے دوران اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے ان بچوں کی تعداد معلوم ہو سکے، لیکن اساتذہ کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اپنی کلاسوں سے مسلسل غیر حاضر ہیں۔
امریکہ میں عالمی وبا کے دوران اسکولوں نے آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم جاری رکھی۔ ایسے میں آن لائن کلاسز سے غیر حاضر رہنے والے بچوں کی تعداد کے مسلسل بڑھنے کے باعث اساتذہ اور اسکول انتظامیہ میں تشویش پھیل گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی اسکول ان بچوں کو واپس لانے کے لیے تمام کوششیں کر رہے ہیں۔ ان میں ان بچوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ڈھونڈنا، ان کے گھروں میں جانا اور اسکولوں کے اسٹاف کو ان بچوں کے ضائع ہونے والے وقت کو بچانے کے لیے خصوصی مدد کے لیے کہنا شامل ہے۔
اسکولوں کا کہنا ہے کہ پچھلے برس اسکول چھوڑنے والے بچوں کے اعداد و شمار ابھی موجود نہیں ہیں۔ کچھ اسکول حکام کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جو بچے گھر سے پڑھنے کے دوران لاگ آن نہیں کر رہے، وہ اسکول چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
امریکہ میں بچوں کے اسکول چھوڑنے کے سدباب کی قومی تنظیم، نیشنل ڈراپ آؤٹ پریوینشن سینٹر کی چئیرمین سینڈی ایڈیز کا کہنا ہے کہ ’’جب بچے اسکول چھوڑتے ہیں تو وہ اس کے لیے کسی نہ کسی وجہ کو ڈھونڈتے ہیں، اور وبا نے یہ وجہ فراہم کر دی ہے۔‘‘ ان کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس برس اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں اگلے کئی برسوں تک اضافہ ہوتا رہے گا۔
امریکی شہر کنساس سٹی میں ہائی اسکول کے پرنسپلز کی نگرانی کرنے والے ٹوری پٹسچ نے اے پی کو بتایا کہ شہر میں ایک اسکول نے مختلف خاندانوں کو اس وجہ سے ہزاروں کالیں کی ہیں۔
پٹسچ کے مطابق اگر وہ کسی طالب علم سے محروم ہوں گے، تو ایسا ہر طریقہ بروئے کار لانے کے بعد ہی ہو سکے گا۔
عالمی ادارے یونیسکو کے مطابق، عالمی وبا کے بعد دنیا بھر میں دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں کے اسکول چھوڑنے کا خطرہ ہے۔
دوسری طرف امریکہ میں ایسے افراد جو ویکسین لینے سے انکار کر رہے تھے، ان کی تعداد میں پچھلے چند مہینوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی ایسے افراد موجود ہیں اور اے پی نے ایک نئے سروے پول کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے افراد ویکسین کے مضر اثرات اور اس کے تجربات کی تفصیلات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور سینٹر فار پبلک افئیرز ریسرچ کے سروے کے مطابق جن افراد کو ابھی تک ویکسین نہیں لگی، ان میں سے 11 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ وہ ضرور ویکسین کے دونوں شاٹ لگوائیں گے جب کہ 34 فیصد افراد اب بھی ویکسین لگوانے سے انکار کر رہے ہیں۔
ان میں سے 27 فیصد افراد ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ شاید ویکسین لگوائیں گے جب کہ 27 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ وہ شاید ویکسین نہ لگوائیں۔
سروے کے مطابق، جہاں رواں برس جنوری میں ہر تیسرا امریکی ویکسین نہ لگوانے کی رائے رکھتا تھا، وہاں اب ہر پانچواں امریکی ایسی رائے رکھتا ہے۔
سروے کے مطابق ویکسین نہ لگوانے کی رائے رکھنے والے افراد میں تین چوتھائی افراد ویکسین کی تیاری کے مراحل یا پھر بات پر شک کرتے ہیں کہ آیا ویکسین ٹھیک طرح سے تجربات کے مراحل سے گزری ہے جب کہ 55 فیصد افراد ویکسین کے مضر اثرات سے خائف نظر آئے۔
اے پی سے بات کرتے ہوئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی امیونالوجسٹ کزمیکیا کوربٹ کا، جو موڈرنا ویکسین کے بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر چکی ہیں، کہنا تھا کہ لوگوں میں بداعتمادی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ سائنسی طریقہ کار کو عوام کی زبان میں بیان کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ویکسین کے بارے میں اعتماد سازی بہت پہلے شروع کر دینی چاہیے تھی۔ بقول ان کے، لوگوں کو بار بار ویکسین سے متعلق پھیلی افواہوں کا توڑ بتانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ویکسین کے متعلق ایسی ایسی باتیں گھڑی گئی ہیں کہ میں ان کا جواب بھی نہیں دے سکتی، مگر ہم کوشش کر رہے ہیں،کہ جلد از جلد لوگوں کو مطمئین کر سکیں۔‘‘