امریکہ کے صدر کے افغانستان سے فوج کا انخلا ستمبر تک مکمل کرنے کے اعلان پر افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے فیصلے سے افغانستان سے امریکہ کی فوج کے قیام یا انخلا کے بارے میں عوام کے خدشات ختم ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول افغانستان نے اس فیصلے کا احترام کیا ہے۔
آذر بائیجان میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے آن لائن خطاب میں صدر اشرف غنی نے کہا کہ صرف افغان کمانڈوز، خصوصی دستوں اور فضائیہ کے اہلکاروں کی تعداد 40 ہزار ہے۔ ان کا شمار خطے کے بہترین کمانڈوز میں ہوتا ہے۔
افغان فورسز کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک یہ طاقت قائم رہے گی ریاست کے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان مسلح افواج آزادانہ طور پر ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور کئی برس سے 94 فی صد آپریشن افغان فورسز ہی کر رہی ہیں۔
قبل ازیں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن غیر اعلانیہ دورے پر جمعرات کو اچانک افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان قیادت کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔
اینٹنی بلنکن کے دورۂ افغانستان کا مقصد افغان قیادت کو یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے افغان صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران کہا کہ دورۂ کابل کا مقصد افغان قیادت کو یقین دہانی کرانا ہے کہ امریکہ افغان حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شراکت بدل رہی ہے لیکن شراکت داری پائیدار خطوط پر استوار ہے۔
اس موقع پر صدر غنی نے افغانستان میں امریکی افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ " افواج کے انخلا سے متعلق ہم امریکی فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ہم اپنی ترجیحات کو ضرورتوں کے مطابق ڈھالیں گے۔"
صدر غنی سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان سرزمین سے مزید کوئی اور دہشت گردی کا حملہ روکنے کے سلسلے میں کام کرے گا۔
دوسری جانب افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ افغانستان کو امریکہ کے لڑاکا فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے اپنی مسلح افواج کے لیے معاونت کی ضرورت ہے۔
حمد اللہ محب جمعے کو ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف اور بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ہمراہ ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حمد اللہ محب نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کا ستمبر تک امریکہ کی فوج کے انخلا کا منصوبہ افغانستان کے عوام کے لیے ملک میں سلامتی کی صورتِ حال پر قابو پانے کا بڑا موقع ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے طالبان کو خبردار کیا کہ کوئی بھی طالبان کی واپسی کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری طریقوں کی بنیاد پر طالبان کو بدلنا ہوگا۔ اگر وہ اپنے 90 کی دہائی کے نظریے کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں تو یہ ناممکن ہوگا کیونکہ آج ایک نیا اور مختلف افغانستان موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران زیادہ مہاجرین کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین ایران میں موجود ہیں۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ افغانستان کو ملک کے اندر اور خطے میں امن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر میک ماسٹر کے جمعرات کے روز افغانستان کی مدد کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے مفادات کے بیان کے بارے میں کہا کہ بقول ان کے یہ قطعی خیالی تصور ہے کہ بھارت نے افغانستان میں جو کچھ کیا ہے اس کا مقصد بالواسطہ طور پر پاکستان کو ہدف بنانا ہے۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں القاعدہ کے دہشت گردوں نے مسافر طیاروں کو ہائیک جیک کرنے کے بعد انہیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیا تھا۔
دہشت گردی کے اس ہلاکت خیز واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں چڑھائی کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور طالبان کے درمیان امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ جاری رہی۔
تقریباً دو عشروں تک جاری رہنے والی اس جنگ کے خاتمے کا اعلان امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔
افغان جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر افغان قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے جمعرات کو اینٹنی بلنکن نے افغانستان کا دورہ کیا۔
ان کے بقول طالبان نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ کو پنپنے نہیں دیں گے اور ہم طالبان کو اس عہد پر قائم رکھنے پر مجبور رکھیں گے۔
SEE ALSO: امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا اعلان، فوج کی واپسی کا وقت آ گیا: بائیڈنیاد رہے کہ گزشتہ برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے کی رو سے تمام غیر ملکی افواج کو یکم مئی 2021 تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے جس کے بدلے طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ نہ بننے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے صدر جو بائیڈن کے اعلان پر طالبان نے تنقید کی ہے۔
طالبان نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کا تاخیر سے انخلا گزشتہ برس ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
SEE ALSO: طالبان نے امریکی فوج کا ستمبر میں انخلا کا اعلان دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے دیاطالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت یکم مئی تک غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا یقینی بنائیں۔
طالبان کا دعوی ہے کہ امریکہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے جس کے بعد جنگجوؤں کے لیے جوابی حکمتِ عملی اختیار کرنے کا جواز پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کے بقول معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج کے ذمہ دار طالبان نہیں بلکہ امریکہ ہو گا۔