وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ انھیں اس میں شک نہیں کہ شام کے خلاف امریکی کارروائی نا ہونا ایک بڑی جنگ اور کیمیائی ہتھیاروں کے مزید استعمال کا سبب بنے گی۔
امریکہ میں سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دینے کے لیے رائے شماری بدھ کو متوقع ہے۔
خارجہ امور کمیٹی کے رہنما منگل کو دیر گئے اس منصوبے پر متفق ہو گئے جس میں صدر براک اوباما کو شام کے فوجی اہداف کے خلاف 60 دنوں تک محدود کارروائی کرنے کا حکم دینے کا اختیار ہوگا۔
قرارداد میں زمینی فوج استعمال کرنے کی اجازت شامل نہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فوجی کارروائی کا مقصد شام کو مستقبل میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے روکنا ہے۔
صدر اوباما کو شام کے بحران کے سیاسی حل کی حکمت عملی بھی پیش کرنا ہوگی۔
اس اجازت پر عمل درآمد سے قبل سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے اس کی مکمل منظوری ضروری ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ انھیں اس میں شک نہیں کہ شام کے خلاف امریکی کارروائی نا ہونا ایک بڑی جنگ اور کیمیائی ہتھیاروں کے مزید استعمال کا سبب بنے گی۔
وہ منگل کو سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے بات کر رہے تھے جس میں شام کے خلاف امریکی فوجی کارروائی پر قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
مسٹر کیری نے کہا کہ شام کے صدر بشارالاسد کو اقتدار کی ہوس ہے جس بنا پر انھوں نے گزشتہ ماہ دمشق کے مضافات میں شہریوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی۔
امریکی صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ انھیں شام کے خلاف فوجی کارروائی کے اپنے فیصلے کی کانگریس سے توثیق مقصود ہے۔ مسٹر کیری نے سینیٹرز کو بتایا کہ یہ کارروائی بلاشبہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے لیکن ایسا نہ کرنا ایران، حزب اللہ اور شمالی کوریا کی توقعات سے مطابقت رکھتا ہے۔
کمیٹی کے ارکان کے سوالوں کے جواب میں وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شام میں امریکی فوجی جائیں۔ ان کے کہنا تھا کہ یہ شام کے عوام پر ہے کہ وہ اسد حکومت کا خاتمہ کریں۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارٹن ڈمپسی نے کمیٹی کو بتایا کہ مسٹر اسد کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے اسلحے کے ذخیرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول شام میں امریکہ کا مقصد ان ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مسٹر اسد کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے۔
وزیرخارجہ کیری کا کہنا تھا کہ یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ اسد حکومت نے سویلین پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ شامی فوجی نے احتیاط کے ساتھ اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔ اُن کے بقول عام آدمی کی عقل بھی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذمہ دار باغی نہیں، جیسا کہ شام کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ میننڈز، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، نے منگل کو سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شام پر ووٹ سینیٹ کا سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ امریکہ کی قومی سلامتی کے بہترین مفاد کا ہے۔
ریبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینراور سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی نے صدر اوباما کے فیصلے کی حمایت کی۔
لیکن کانگریس کے دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ شام میں صدر کے مقاصد تاحال غیر واضح ہیں۔ ان کے بقول ماضی کے تجربات بشمول 10 سال قبل بش انتظامیہ کی طرف سے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی پر فوجی کارروائی کا فیصلے سے اس میں شکوک شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
خارجہ امور کمیٹی کے رہنما منگل کو دیر گئے اس منصوبے پر متفق ہو گئے جس میں صدر براک اوباما کو شام کے فوجی اہداف کے خلاف 60 دنوں تک محدود کارروائی کرنے کا حکم دینے کا اختیار ہوگا۔
قرارداد میں زمینی فوج استعمال کرنے کی اجازت شامل نہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فوجی کارروائی کا مقصد شام کو مستقبل میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے روکنا ہے۔
صدر اوباما کو شام کے بحران کے سیاسی حل کی حکمت عملی بھی پیش کرنا ہوگی۔
اس اجازت پر عمل درآمد سے قبل سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے اس کی مکمل منظوری ضروری ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ انھیں اس میں شک نہیں کہ شام کے خلاف امریکی کارروائی نا ہونا ایک بڑی جنگ اور کیمیائی ہتھیاروں کے مزید استعمال کا سبب بنے گی۔
وہ منگل کو سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے بات کر رہے تھے جس میں شام کے خلاف امریکی فوجی کارروائی پر قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
مسٹر کیری نے کہا کہ شام کے صدر بشارالاسد کو اقتدار کی ہوس ہے جس بنا پر انھوں نے گزشتہ ماہ دمشق کے مضافات میں شہریوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی۔
امریکی صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ انھیں شام کے خلاف فوجی کارروائی کے اپنے فیصلے کی کانگریس سے توثیق مقصود ہے۔ مسٹر کیری نے سینیٹرز کو بتایا کہ یہ کارروائی بلاشبہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے لیکن ایسا نہ کرنا ایران، حزب اللہ اور شمالی کوریا کی توقعات سے مطابقت رکھتا ہے۔
کمیٹی کے ارکان کے سوالوں کے جواب میں وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شام میں امریکی فوجی جائیں۔ ان کے کہنا تھا کہ یہ شام کے عوام پر ہے کہ وہ اسد حکومت کا خاتمہ کریں۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارٹن ڈمپسی نے کمیٹی کو بتایا کہ مسٹر اسد کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے اسلحے کے ذخیرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول شام میں امریکہ کا مقصد ان ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مسٹر اسد کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے۔
وزیرخارجہ کیری کا کہنا تھا کہ یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ اسد حکومت نے سویلین پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ شامی فوجی نے احتیاط کے ساتھ اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔ اُن کے بقول عام آدمی کی عقل بھی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذمہ دار باغی نہیں، جیسا کہ شام کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ میننڈز، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، نے منگل کو سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شام پر ووٹ سینیٹ کا سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ امریکہ کی قومی سلامتی کے بہترین مفاد کا ہے۔
ریبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینراور سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی نے صدر اوباما کے فیصلے کی حمایت کی۔
لیکن کانگریس کے دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ شام میں صدر کے مقاصد تاحال غیر واضح ہیں۔ ان کے بقول ماضی کے تجربات بشمول 10 سال قبل بش انتظامیہ کی طرف سے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی پر فوجی کارروائی کا فیصلے سے اس میں شکوک شبہات پیدا ہوتے ہیں۔