جان مکین اور لنڈسی گراہم نے اوباما انتظامیہ شام میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا شام کی فوجیں گزشتہ دو سالوں سے روس اور ایران سے اسلحہ حاصل کر رہی ہیں جس سے یہ لڑائی غیر منصفانہ ہے۔
امریکہ کے دو اہم سینیٹرز نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ ایک ٹھوس منصوبہ تیار کر رہی ہے جس کا مقصد شام کے حزب مخالف کو مضبوط بنانا اور بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں مدد کرنا ہے۔
ریپبلکن سینیٹرز جان مکین اور لنڈسی گراہم شام کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے حامی ہیں اور انھوں نے پیر کو وائٹ ہائوس میں صدر براک اوباما سے ملاقات کی۔
مسٹر مکین نے بعد ازاں کہا کہ ان کے پاس اس یقین کی وجہ ہے کہ شام کے خلاف فوجی حملہ بظاہر نظر آنے والی صورتحال سے کہیں زیادہ شدید ہوگا۔
مسٹر گراہم کا کہنا تھا جب تک مسٹر اسد کی فورسز جیت رہی ہیں شام کا کوئی سیاسی حل نہیں ہو سکتا۔
دونوں سینیٹرز نے اوباما انتظامیہ شام میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا شام کی فوجیں گزشتہ دو سالوں سے روس اور ایران سے اسلحہ حاصل کر رہی ہیں جس سے یہ لڑائی غیر منصفانہ ہے۔
صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ شام کے خلاف شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے الزام میں فوجی کارروائی کی کانگریس سے منظوری چاہتے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کا اجلاس منگل کو ہو رہا ہے جس میں شام سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے۔
منگل ہی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سلامتی کونسل کے ارکان کو شام میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ مسٹر بان عالمی ادارے کے شام میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
اس ٹیم نے گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی جگہ سے نمونے جمع کیے ہیں۔ اس حملے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوِئے۔
فرانس کے ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد زہریلی گیس کے الزام کو غیر منطقی قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور فرانس کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ امریکہ یا فرانس کی طرف سے فوجی حملہ خطے میں جنگ کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔
ریپبلکن سینیٹرز جان مکین اور لنڈسی گراہم شام کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے حامی ہیں اور انھوں نے پیر کو وائٹ ہائوس میں صدر براک اوباما سے ملاقات کی۔
مسٹر مکین نے بعد ازاں کہا کہ ان کے پاس اس یقین کی وجہ ہے کہ شام کے خلاف فوجی حملہ بظاہر نظر آنے والی صورتحال سے کہیں زیادہ شدید ہوگا۔
مسٹر گراہم کا کہنا تھا جب تک مسٹر اسد کی فورسز جیت رہی ہیں شام کا کوئی سیاسی حل نہیں ہو سکتا۔
دونوں سینیٹرز نے اوباما انتظامیہ شام میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا شام کی فوجیں گزشتہ دو سالوں سے روس اور ایران سے اسلحہ حاصل کر رہی ہیں جس سے یہ لڑائی غیر منصفانہ ہے۔
صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ شام کے خلاف شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے الزام میں فوجی کارروائی کی کانگریس سے منظوری چاہتے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کا اجلاس منگل کو ہو رہا ہے جس میں شام سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے۔
منگل ہی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سلامتی کونسل کے ارکان کو شام میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ مسٹر بان عالمی ادارے کے شام میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
اس ٹیم نے گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی جگہ سے نمونے جمع کیے ہیں۔ اس حملے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوِئے۔
فرانس کے ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد زہریلی گیس کے الزام کو غیر منطقی قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور فرانس کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ امریکہ یا فرانس کی طرف سے فوجی حملہ خطے میں جنگ کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔