محمد مرسی کی سزائے موت پر امریکہ کا اظہارِ تشویش

فائل

امریکہ کے ردِ عمل سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سمیت کئی عالمی رہنما عدالتی فیصلے پر کڑی تنقید کرچکے ہیں۔

امریکہ نے فوج کے ہاتھوں برطرف ہونے والے مصر کے صدر محمد مرسی کو ایک مصری عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے پر "سخت تشویش" ظاہر کی ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ مصر کی ایک عدالت کی جانب سے معزول صدر مرسی سمیت 100 سے زائد ملزمان کو سزائے موت دینے کے فیصلے نے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ماضی میں بھی مصر کی عدالتوں کی جانب سے سیاسی ملزمان کے خلاف مقدمات کی اجتماعی سماعت اور سخت سزائیں سنانے کی روایت پر تنقید کرتا رہا ہے۔

عہدیدار کے بقول امریکہ سمجھتا ہے کہ عدالتی سماعت اور فیصلوں کا یہ طریقہ کار قانون کی بالادستی اور ان ذمہ داریوں سے متصادم ہے جو بین الاقوامی قوانین اور ضابطے مصر پر عائد کرتے ہیں۔

مصر کی ایک عدالت نے ہفتے کو 2011ء میں جیل سے قیدیوں کے فرار کے ایک مقدمے میں معزول صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے 106 حامیوں کو سزائے موت سنائی تھی۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ معزول صدر اور دیگر ملزمان پر سابق صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف تحریک کے دوران جیل توڑنے، سرکاری تنصیبات پر حملہ کرنے اور پولیس اہلکاروں کے اغوا اور قتل کے الزامات درست ثابت ہوگئے ہیں۔

امریکہ کے ردِ عمل سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سمیت کئی عالمی رہنما محمد مرسی کو موت کی سزا سنانے کے عدالتی فیصلے پر کڑی تنقید کرچکے ہیں۔

اسلام پسند محمد مرسی مصر کے سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف کامیاب احتجاجی تحریک کے بعد 2012ء میں ہونے والے ملک کے پہلے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئے تھے جنہیں ایک برس بعد ہی مصری فوج نے بغاوت کرکے معزول کردیا تھا۔

محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کی تمام قیادت اور ہزاروں کارکن فوجی بغاوت کے بعد سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور اس سے قبل بھی مصری عدالتیں اسی نوعیت کے کئی فیصلوں میں سیکڑوں افراد کو بیک وقت موت اور عمر قید کی سزائیں سناچکی ہیں۔

محمد مرسی اور ان کی جماعت کے رہنما اپنے خلاف جاری عدالتی کارروائیوں کو بغاوت کرنے والے اس وقت کے فوجی سربراہ اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی اور ان کے ساتھیوں کی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے آئے ہیں۔

صدر السیسی کی جانب سے فوجی بغاوت اور سیاسی کارکنوں کے خلاف جاری کارروائیوں پر امریکہ کی جانب سے "تحفظات" کے اظہار کے باوجود مصر مشرقِ وسطیٰ میں واشنگٹن کا اہم ترین اتحادی اور امریکہ سے فوجی امداد وصول کرنے والا سرِ فہرست ملک ہے۔